×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

انتخابات میں سیکولراقدارکی ناکامی کے اسباب

ارديبهشت 24, 1393 622

قانون کوپیروںتلے روندکر نشرکئے گئے اوپینین پولز ، بڑے پیمانے پر شائع کئے گئے پیڈ نیوز کے معاملے اور مہنگے اشتہارات کے علاوہ بھی

ان انتخابات میں طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ انتخا بی کمیشن کے پاس اس سلسلے میں کئی طرح کی شکایتیں آئی ہیں،مگرجب تک ان الزمات کی چھان بین اور تحقیقات پوری ہوںگی تب تک شاید دوسرے عام انتخاب کابگل بجادیاجائے۔آزادی کے بعد کا یہ سب سے زیادہ مہنگااورایک مخصوص شخصیت پرمرکوز انتخاب تھاجوکل کے مؤرخ اورسیاسی تجزیہ نگاروں کیلئے کافی حیران کرنے والاموضوع ثابت ہوگا۔اپنی نوعیت کایہ پہلاانتخاب تھاجس میںعوامی مفادات سے متعلق ایجنڈے اور سیاسی جماعت کااپناوجود بیک فٹ پرنظرآیا۔یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ ملک کی جمہوری تاریخ میں اس سے زیادہ مہنگا انتخاب اب تک نہیں لڑا گیا تھا۔ کچھ بڑی پالیٹیکل پارٹیوں نے انتخابات پر جتنا خرچ کیا، وہ بے حساب ہے،جس کے اعداد شمار جمع کر ناشایدکبھی ممکن نہ ہوں، مگر اندازے اورتخمینے بتاتے ہیںکہ اس پارلیمانی انتخاب میںلگ بھگ50ہزارکروڑروپے خرچ کئے گئے۔مایوس کن بات یہ ہے کہ کالے دھن کے خلاف سب سے تیز آواز اٹھانیوالی جماعتوں کاانتخابی خرچ سب سے زیادہ رہاہے۔ علاوہ ازیںکارپوریٹ گھرانوں کی ملک کے جمہوری انتخاب میںاتنی کھلی اورلگ بھگ یک طرفہ کارکردگی پہلے کسی انتخاب میں اتنے واضح طور پر دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ ایک بڑے کا ر پور یٹ چینل نے ملک کے کئی کارپوریٹ شہنشاہوں کو وارانسی بلا کر گنگا گھاٹ پر بحث کرائی اور بار باراس کوبراڈکاسٹ بھی کیاگیا۔
بنارس میںپولنگ سے چندروزپہلے ہی منعقدکی جانے والی اس خاص تقریب میں کارپوریٹ کپتانوں نے بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کی نہ صرف یہ کہ کھل کر حمایت کی ، بلکہ ملک کے باشندوں کے سامنے دوٹوک لفظوںمیںیہ دعویٰ بھی پیش کیا کہ صرف مودی ہی اس وقت ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔کچھ بڑے صنعت کاروں نے چینلز کو دیئے الگ الگ انٹرویوز میں مودی کی کھلی حمایت کی،قابل ذکربات یہ ہے کہ مذکورہ سارے کارپوریٹ کپتان کاملک بھرمیںمین پاورکاوسیع کاروباربھی ہے اوریہ اشتہارات اورپروپیگنڈوںکی تجارت سے بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ بہر حال اب انتخابات میںان کارپوریٹ اداروںکی کارگزاری پرگفتگوکرکے وقت ضائع کرنامناسب نہیں ہے ۔ لہذاہم اس سے درگزرکرتے ہوئے حالیہ انتخابات نے ہندوستان کے تعلق سے ساری دنیا با لخصوص عام ہندوستانیوںکوجوپیغام دیاہے اس کاجائزہ لینااورآنے والے وقت میںملک کے عام لوگو ں پراس کے کیااثرات مرتب ہوںگے اس پرروشنی ڈالناناگزیرسمجھتے ہیں۔علاوہ ازیںاس ا ہم سوال پربھی بات کرنی ضروی ہے کہ کانگریس پارٹی آخرکن بداعمالیوںاورغفلت کی وجہ سے ایسی ذلت آمیزشکست سے دوچارہوئی ہے۔
کل نویںاورآخری مرحلے کی پولنگ کے ساتھ ہی بیشترنیوزچینلوںنے ایکزٹ پول کے جن کو بو تل سے باہرکرناشروع کردیاتھا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیںہے کہ ان میںسے زیادہ تر نیوز چینلو ں کے ما لک یہی کارپوریٹ گھرانے ہیں۔ملک کے باوقار اورغیرجانب دارصحافی جوان چینلوںسے وابستہ ہیں انہو ںنے بھی صحافتی اصولوں سے ہٹ کرمحض چینل کے کارندہ کے طورپردوران انتخاب چینلزمالکان کی گائڈلائن پرکام کیا۔اس کی وجہ یہ نہیںہے کہ انہوںنے صحافتی اصولوںسے انحراف کرلیابلکہ اپنی صحافت سے سمجھوتہ نہ کرنے کے لائحہ عمل پرانہوںنے عمل کیا۔یعنی پورے انتخابی دورمیںانہوںنے اپنی صحافتی صلاحیت کاچینل کے بجائے اپنے بلاگ اوردیگرپرنٹ میڈیاکے ذرائع سے بھرپوراستعمال کیا۔آپ اس سلسلے میںمعروف ٹی وی صحافی پنیہ پرسن واجپئی،BEA کے جنرل سکریٹری این کے سنگھ اورروش کماروغیرہ کے طرزعمل کامشاہدہ کرسکتے ہیں۔جب انہیںیہ اندازہ ہوگیاکہ اس وقت ملازم رہتے ہوئے وہ صحافتی اصولوںاورتقاضوںکے مطابق اپنی خدمات انجام نہیںدے سکتے توخاموشی اختیارکرلی۔ آپ ان تمام ٹیلی ویژن صحافیوںکی تحریریںجوان کے بلاگ یاپرنٹ میڈیامیںشائع ہوئیںانہیںدیکھ کراندازہ لگاسکتے ہیںکہ انہوںنے اپنادامن بچانے اورصحافتی اصولوںپرقائم رہنے کی کتنی جدودجہدکی ہے۔ہم کہنایہ چاہ رہے ہیںکہ اس پورے انتخابی دورمیںکارپوریٹ گھرانوںنے چینلزکے براڈکاسٹنگ سسٹم کولگ بھگ اپنے ہاتھوںمیںلے لیاتھا۔جبکہ وہاںکام کرنے والے صحافی حضرات نے مجبوراًاپنی زبانیںبندکرلی تھیں۔ کیا آپ یہ تصوربھی کرسکتے ہیںکہ اگرٹی وی چینلوںکانظام وہاںخدمات انجام دے رہے صحافیوںکے ہاتھوںمیںہوتاتو وہ کسی ایک لیڈرکوہائی لائٹ کرنے کیلئے سب سے زیادہ موقع دیتے،جبکہ مدمقابل رہنماکوبالکل نظراندازکردیتے۔سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ پورے انتخابی کیمپین کے دوران ٹی وی چینلوںپرنریندرمودی کولگ بھگ 70فیصد وقت دیاگیا،جبکہ راہل گاندھی سونیاگاندھی اور دیگر سیکولر لیڈروںکو 8سے6فیصدتک ہی موقع ملا۔کیااس سے یہ واضح نہیںہوتاکہ حالیہ انتخابات کے ذریعہ کارپوریٹ گھرا نو ںنے یہ تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی مادی طاقت اورپیسوںکی بنیادپرکسی کوقتداردے بھی سکتے ہیںاورکسی کواقتدار سے محروم بھی کرسکتے ہیںاوریہ اعتراف کرنے میںکوئی جھجھک نہیںہونی چاہئے کہ ملک کاکارپوریٹ طبقہ اپنے مقصدمیںبڑی حدتک کامیاب بھی رہاہے۔ایکزٹ پول کے اعدادوشماراگرصحیح ہیںتویہ ملک کے مسلمانوںکیلئے بہت بڑالمحہ فکریہ ثابت ہوگا۔حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ میسیج بھی جائے گاکہ فرقہ پرست طاقتوںکواقتدارحاصل کرنے کیلئے اقلیتوںکی نازبرداری کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے۔بلکہ مسلمانوںکوڈرادھمکاکران کے چندنام نہاد قومی رہنماؤں اورمذہبی لیڈروںکوآپسی ناچاقیوںاوراختلافات میںالجھاکربآسانی ان کے ووٹوںکی طاقت کومنتشرکرکے بے معنی کیاجاسکتاہے۔اگراترپردیش جیسی کثیرمسلم آبادی والی ریاست میںایکزٹ پول کے اندازے درست ثابت ہوتے ہیںتوجان لیجئے یہ ملک کے مسلمانوںکیلئے سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی ہوگی اورہندوستان کے مسلمانوںکوخوف کی نفسیات میںمبتلاکرکے کس طرح اقتدارکے مزے لوٹے جاسکتے ہیںاس کی تجربہ گاہ اترپردیش ہی بنے گا،جس کاٹریلرمیرٹھ،بیہٹ اوردیوبندمیںدکھایاجاچکاہے۔اب اس میںقصورہماری ملی تنظیموںکاہے یاہمارے مذہبی قائدین کایاسیکولرسیاسی جماعتوںکایاخودعام مسلم ووٹروںکااس سلسلے میں ابھی کچھ بھی کہناقبل ازوقت ہوگا۔یہ الگ سی بات ہے کہ انتخابات کے دوران خریدوفروخت کی گرم بازاری رہتی ہے اورزیادہ سے زیادہ کمانے کی دھن میںسیاسی گرفت رکھنے والے لوگ مختلف سیاسی آستانوںپرملت فروشی کاکاروبارضرورکرتے ہیں،مگراس کاروبارپریقین کرنے والی جماعتوںاورلیڈروںکواحمقوںکاسردارکہنازیادہ مناسب ہوگا۔وجہ یہ ہے کہ بارباریہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اب عام مسلمان سیاسی معاملے میںمذہبی قائدین کوقطعی اہمیت نہیںدیتااس کی وجہ قائدین کی ملت فروشی کاکاروبار ہے جس کاانکشاف کئی بار ہوچکاہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کانگریس پربھی کئی طرح سے سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔پہلی بات یہ کہ انتخابی منظرنامے سے اس شخص کوبالکل غائب کردیاگیا،جس کے ہاتھوںمیں10برس تک ملک کے اقتدارکی باگ ڈور تھی۔اس کے علاوہ ان لیڈروںکوبھی بیک فٹ پربھیج دیاگیاجوکسی نہ کسی زاویہ سے اقتدارمیںشریک تھے،اس کے برعکس ایک طرح سے بے قصوراوراقتدارسے کافی الگ تھلگ رہنے میںیقین رہنے والے راہل گاندھی کو بلی کابکرابناکرپیش کردیاگیا۔ اس کانتیجہ یہ ہواکہ کانگریس کادفاعی محاذپورے انتخابی مہم کے دوران بالکل چوپٹ رہااوراس کانتیجہ آج دنیاکے سامنے ہے۔

فیض احمد فیض

Last modified on پنج شنبه, 25 ارديبهشت 1393 19:45
Login to post comments