آتاہے تو آْنے والے دنوں کا ہندوستان کیسا ہوگا؟ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی کی تقاریر کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے والے حلقے بھی اِس وقت دِل تھام کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک حلقہ تو ان لوگوں پر مشتمل ہے جوایگزٹ پول کی بنیاد پر بی جے پی کی جیت کو یقینی قرار دے رہا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں یوپی اے نے جو سیاسی خلا پیدا کیا ہے، اْس کا سیدھا فائدہ این ڈی اے کو حاصل ہونا یقینی ہے۔ جب کہآزادتجزیہ کاروں کی ایک جماعت نے ایگزٹ پول کی قیاسا ا ٓرائیوں کو کسی بھی صورت میں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اسے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کی آبادی کی غالب اکثریت ملک کے جمہوری اقدار کی بقا میں یقین رکھتی ہے، صدیوں سے یہاں مختلف مذاہب و ثقافت کے لوگ آباد ہیں جو سماج کو تقسیم کرنے والی قوتوں کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے اس نے میڈیا کے ذریعہ چلائی جانے والی مصنوعی لہر کا کوئی اثر قبول نہیں کیا ہے ، بہر حال یہ عقدہ تو اب 16 مئی کوہی کھلے گا جب ای وی ایم مشین سے نتائج برآمد ہوں گے ۔
موخرالذکر حلقے کی اپنے موقف کی تائید میں یہ دلیل ہے کہ جس دور میں فسطائی قوتوں کا کافی زور تھا اور ہندوستانی سماج کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی، اْس وقت بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ دونوں گروپوں کی دلیلیں قابل غور ہیں۔ اِس درمیان موخرالذکر گروپ کے موقف کی حمایت کرنے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بی جے پی 150 کے ہند سے کو کسی بھی صورت میں پار نہیں کرسکتی۔ ملک بھر کی سبھی ریاستوں کا سروے پیش کرتے ہوئے اِس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ملک کی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کو صفر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور ایسی ریاستوں کی تعداد کافی ہے، جہاں علاقائی جماعتیں کافی مضبوط پوزیشن میں ہیں اور فی الحال ان سے بی جے پی کے اتحاد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، جن میں ممتا بنرجی، مایاوتی، جے للتا کا نام خاص طور سے لیا جارہا ہے۔ اس بات کا احساس خود بی جے پی کو بھی ہوچلا ہے اور دیگر سیاسی گروپوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس نیابھی سے دعوت دینا شروع کردیا ہے، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ نے حکومت سازی کے دوسرے متبادل پر غور وخوض کے لیے ا?ر ایس ایس سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کی ا?ہٹ سے باشعور حلقوں میں بے چینی کی کیفیت پائی جارہی ہے؟ یہ بے چینی بے سبب نہیں ہے ، اِس بیچینی کی اصل وجہ جاننے کی ضرورت ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سینکڑوں تنظیمیں قائم کررکھی ہیں۔ سب کے دائرہ کار الگ الگ ہیں۔ان میں بھارتی مزدور سنگھ، سودیشی جاگرن منچ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، ونواس کلیان سمیتی قابل ذکر ہیں۔ سب کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس منصوبے کی قلعی اس وقت کھلی تھی جب کرنل پروہت،اسیما نند،اور سادھوی پرگیا سنھگ ٹھاکر کی گرفتاری عمل میں آئی تھی بلکہ ہندو رشٹر کا بلیو
پرنٹ بھی سامنے آیا تھا کئی میڈیا میں سکیوریٹی ایجنسیوں کے ذریعے اہم انکشافات ہوئے تھے لیکن ہیمنت کر کرے کی موت کے ساتھ ہی جانچ کا رخ یکسر تبدیل ہو گیا۔
اِس بات کا صحیح اندازہ نریندر مودی کے حالیہ انٹرویو سے بخوبی ہو تا ہے جو انہوں نے انگریزی نیوز چینل ٹائمس نا و کو دیا ہے،جس میں ٹھیک اسرائیل کے طرزپر ہندوستان کو ہندولینڈ بنانے کا واضح منصوبہ پیش کیاہے اور یہ وہی پلان ہے جس پر اسرائیل دنیا بھر کے یہو دیوں کے لیے 1948 سے گامزن ہے اور فلسطنییوں کی زمین غصب کرکے اسرائیلی کالونی آباد کرنے میں مصروف ہے۔ مودی نے کہاہے کہ دنیا میں بسنے والے سبھی ہندووں کا فطری وطن ہندستان ہے اور ہمیں اْن کی فکر کرنی چاہیے۔ انہوں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان سے دہائیوں قبل آئے ہندو پناہ گزینوں کو بسانے کے لیے اب تک کی سرکاروں نے کچھ نہیں کیا یہ لوگ بھارت کی سرزمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں ساتھ ہی آسام اور بنگال کے مسلمانوں کو درانداز کہہ کر ملک سے باہر نکالنے کے عزم کا اعا دہ کیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اسرائیل سے تربیت یافتہ یہ سیاسی گروپ منصوبہ بند طریقے سے اسرائیلی طرز پر فلسطینی مسلمانوں کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کو کنارے لگانے کا منصو وضع کر رکھا ہے بلکہ یہ کام آسام میں شروع بھیہ ہو گیا ہے وہاں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں مشتبہ قرار دے کر ووٹ دینے سے محروم کردیاگیا ہے، اور یہ عمل مستقل جاری ہے ، گویا غزہ پٹی کی طرز پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا عمل جاری ہے۔
اشرف علی بستوی ،نئی دہلی