×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

ضوابط شکنی کی کسے ہے پروا؟

ارديبهشت 25, 1393 608

مودی جیتے یا نہ جیتے لیکن ذرائع ابلاغ کی تشہیر کی بدولت ہندوستانی بازار حصص میں زبردست اضافہ نظر آ رہا ہے جبکہ ملک میں

انتخابات کے آخری دور کے بعد ایگزٹ پولوںنے یہ کہا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی اور اس کے اتحادی انتخابات میں کامیاب ہونے کی راہ پر گامزن ہیں۔ہندوستان میں تقریباً 6ہفتوں سے پارلیمانی انتخابات کے دوران 9 مرحلوں میں کل 543 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے۔اس پورے عمل میں ضوابط شکنی کے متعدد مراحل آئے۔ اترپردیش کے وارانسی لوک سبھا حلقہ میں کانگریس امیدوار اجے رائے اس وقت ایک تنازع میںپھنس گئے جبکہ وہ اپنے کرتے پر پارٹی کے انتخابی نشان کیساتھ ایک پولنگ اسٹیشن میں اپنا ووٹ ڈالنے گئے۔ ان کی اس حرکت پر فوراً ہی الیکشن کمیشن نے معاملہ کی انکوائری کروائی جبکہ بھارتیہ جنتاپارٹی اور عام آدمی پارٹی نے بھی ان کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ پولنگ اسٹیشن کے 100میٹر کے دائرے میں کسی بھی پارٹی کا چنا? نشان استعمال کرنا چنا? ضابطوں اور قاعدوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی نے گذشتہ روز پولنگ کے دن نریندرمودی کی ویڈیو تقریر دکھانے کیلئے میڈیا گھرانوں کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے بھی الیکشن کمیشن کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ چنا? ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جو الیکشن کمیشن کے جانب دارانہ رویہ کو ظاہر کرتاہے۔ عام آدمی پارٹی نے کہاہے کہ میڈیا گھرانوں کی جانب سے ایم سی سی کی شدید خلاف ورزی دیکھ کر اسے دکھ ہوا اور الیکشن کمیشن اس رویہ پر جہاں ٹی وی نیوز چینلوں نے نریندر مودی کی تقریر کو براہ راست نشر کیاہے۔ الیکشن کمیشن کے جانب دارانہ رویہ کو ظاہر کرتاہے پارٹی نے پورے ملک کو باخبر کیاہے کہ مودی وارانسی سے لڑرہے ہیں اورگذشتہ روز ان کی سیاسی تقریروں کو وارانسی کے رائے دہندگان کو متاثر کرنے کیلئے نشرکیاگیا ہے۔پارٹی نے الیکشن کمیشن کو اپنے خط میں کہا کہ چنا? ضابطہ اخلاق ہندوستان کے تمام شہریوں پر نافذ العمل ہے جبکہ میڈیا گھرانے اس سے مستثنی نہیں ہیں۔
 
پارلیمانی جمہوریت پر حملے:
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کی دہائی دینے والوں کو یہ کون سمجھائے کہ ضابطہ اخلاق کی اہمیت صرف اس وقت تک ہے جب تک کوئی شخص یا ادارہ اپنے ذاتی مفادات کیخلاف حالات میں بھی اس کا دباو ¿ محسوس کرے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے کے کئی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے انتخابات کو ہم یاد نہ بھی کریں تو ایک سب سے مشہور لفظ پیچھا نہیں چھوڑتا ، وہ ہے پیڈ نیوز۔ میڈیا سمجھتا ہے کہ ووٹروں کے درمیان کسی قسم کی فریب دہی پارلیمانی جمہوریت کے نظام کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ہے جبکہ وہاں ووٹروں کومسلسل بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ امیدواروں سے بھاری بھرکم رقم وصول کرکے خبروں کی شکل میں اشتہار چھاپے یا دکھائے جاتے رہے ، تاکہ میڈیا کو پیسے دینے والے امیدواروں کے حق میں رائے دہندگان کو فریب دیاجا سکے۔ ووٹروں نے خبروں پر یقین محکم ظاہر کیا ہے اور اس یقین کو میڈیا اداروں نے مارکیٹ میں فروخت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس دباو ¿ کے بغیر ، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کروانے کے مقاصد کو ضرب پہنچانے کی مساعی کے طور پر دیکھا گیا۔اس مرتبہ کے لوک سبھا انتخابات کے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ مزید واضح ہو جاتا ہے۔ یہ میڈیا کے ضابطہ اخلاق کو ہی توڑنے کا محض معاملہ ہی نہیںہے بلکہ اسے پارلیمانی جمہوریت پر براہ راست یا بالوسطہ حملوں کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔7 اپریل کو آسام اور تری پورہ کی 6 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی تھی جبکہ نیوز چینلوں کی طرف سے بی جے پی کا انتخابی منشور جاری کرنے کی تقریب کا براہ راست نشر کیا جا رہا تھا۔بریکنگ نیوز کے دوران ٹی وی چینلوں پر براہ راست نشریات کیساتھ منشور کی بنیادی باتوں اور وعدوں کو بھی دکھایا جاتا رہا۔ مرلی منوہر جوشی نے منشور پر تفصیل پیش کرنے کے دوران شمال مشرقی ریاستوں کے بارے میں اپنے وعدوں کودوہرانا بھی شروع کردیا۔

کریلہ چڑھا نیم پر:
10 اپریل کو دہلی کے تمام7 پارلیمانی علاقوں میں پولنگ ہو رہی تھی۔ اس دن کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کی مدد کرنے کیلئے میز کرسی لگائے ہوئے کارکنوں میں اخبار پڑھنے کا گویامقابلہ سا نظر آیا۔ جسے دیکھو ،پہلا صفحہ کھولے ہوئے دکھائی دیتا تھا۔ دراصل انتخابی نشان کی نمائش پر الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود اخبارمیں اس کی اشاعت کریلہ کو نیم پر چڑھارہی تھی۔ کیونکہ اس روز دہلی سے شائع ہونے والے اکثر تمام اخبارات کے صفحہ اول پر’ مودی مے اورکمل مے‘ تھا۔ ٹوپی ‘بینر‘ پرچوں پر انتخاب نشان کو روکا جا سکتا تھا ، لیکن اخبارات کو پڑھنے اور دکھانے پر پابندی کیسے لگے ؟ سو ، خوب دکھا’کمل ‘۔ کئی جھگی بستیوں کے مراکز کے پاس بھی کارکن انگریزی اخبارات کو گھنٹوں تکتے نظر آئے۔ غور طلب ہے کہ اس دن ملک کے کل بانبے پارلیمانی علاقوں میں مت ڈالے گئے۔17اپریل کو پولنگ کے چھٹے دور میں سب سے زیادہ ایک سو22 پارلیمانی علاقوں میں پولنگ سے دو دن پہلے این ڈی ٹی وی نے ایک اوپینین پول کے نتائج جاری کئے۔ دوسرے دن دی ٹائمز آف انڈیا اور دیگر اخبارات نے بڑی خبر شائع کی کہ پہلی بار کسی اوپینین پول نے بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں اکثریت سے سرفرازکر دیا۔ سروے کے نتائج کے مطابق این ڈی اے کو 543 سیٹوں میں سے 275 سیٹیں ملیں گی جبکہ تن تنہا بی جے پی کو 226 سیٹیں ملیں گی۔ الیکشن کمیشن نے 14 اپریل کو اس اوپینین پول کے بارے میں کہا کہ اس میں ان 111 لوک سبھا علاقوں کے ممکنہ نتائج شامل تھے ، جہاں پولنگ ہوئی اور ایک طرح سے مذکورہ حلقوں کے حوالے سے اندازوں کے نتائج کو منظر عام پر پیش کرتا ہے جبکہ یہ عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 126 کی خلاف ورزی ہے۔

قانون کی غیر واضح تشریح:
24 اپریل کو 117 پارلیمانی علاقوں میں ووٹ ڈالے جا رہے تھے اور اسی دن نریندر مودی نے وارانسی سے اپنا نامزدگی داخل کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ٹی وی چینلوںنے ان کی نامزدگی تقریب کو دن بھر نشر کیا۔دنیا بھر میں شاید ہی کسی امیدوار کی نامزدگی داخل کرنے کے پروگرام کو نشر کرنے کیلئے اتنا وقت دیا گیا ہو۔ کیا یہ واقعات محض اتفاق ہیں ؟ ضابطہ اخلاق کے عمل کی ذمہ داری بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر ہے ، کیونکہ وہی انتخابی میدان میں ہیں اور جلوس ، اجلاس اورتشہیر کیلئے مختلف قسم کے طریقے اپناتے ہیں۔ لیکن کسی بھی ضابطہ اخلاق اور قانون کی تشریح واضح طورپر نہیں کی جاتی جبکہ اس کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ ووٹر بغیر کسی دباو ¿ میں آئے منصفانہ اور آزاد طریقہ سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکے۔جمہوریت کے تحت تمام فعال اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے مقاصد کے مطابق کام کریں۔ ایسا نہیں مانا جا سکتا کہ کوئی ایک ادارہ تو جمہوریت کے مقاصد کو پورا کرنے کے ارادہ سے کام کرے جبکہ دوسرے ادارے متعینہ اصول وضوابط کو توڑنے کی گنجائشیں تلاش کریں اور انہیں توڑنے کا فیصلہ کریں۔ میڈیا میں یہ رجحان ایک نظریہ کے طور پر قائم ہو چکا ہے کہ وہ جمہوریت کو مکمل طور پر دیکھنے کی بجائے جمہوریت کی خصوصیات کا استعمال اپنے مفادات کیلئے کرتا ہے۔7 اپریل پولنگ کا دن تھا اور اسی دن بی جے پی نے اپناانتخابی منشور جاری کرنے کا فیصلہ کیا ، تو وہ تکنیکی طور پر یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ آسام اور تری پورہ سے بہت دور واقع لال قلعہ والے دارالحکومت سے ووٹروں کے تئیں اپنی ایک ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ عوامی نمائندگی قانون اور ضابطہ اخلاق سے وہ خود کو محفوظ کر لیتی ہے۔لیکن اگر وہ اس ضابطہ اخلاق اور عوامی نمائندگی قانون سے بچنے اور ووٹروں کے درمیان ووٹنگ کے دوران تشہیر کرنے کی حکمت عملی کا حصہ میڈیاکو بنا لیتی ہے ، تو اس کیلئے کسے ذمہ دار تسلیم کیا جانا چاہئے !

اوپی نین پول کی آڑ میں:
اگر میڈیا ادارے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے ، جس سے کہ وہ پولنگ والے علاقوں میں براہ راست نشریات کو روک سکیں ، تو کیا ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی مجبوری ، ضابطہ اخلاق اور قانون کی روح کے مطابق راستہ بنا ئیں ؟ اگر وہ صرف تکنیکی حدود کا بہانہ بناتے ہیں تو یہ ان کے طرز عمل کے ایک طویل پس منظر کا مطالعہ کرنے کیلئے مجبورکرنے لگتی ہے۔ بی جے پی سماجی ، سیاسی اور اقتصادی بنیادوں والی تنظیم ہے ، کیا اس سے الگ کوئی تنظیم اپنا اتنے ہی اہمیت کا پروگرام منعقد کرتی تو ٹی وی چینل کے ایڈیٹر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کرتے ؟یہی رجحان10 اپریل کی پولنگ کے وقت بھی دیکھنے کو ملا۔ ضابطہ اخلاق میں بیان کردہ جملوں کی آسان تشریح بی جے پی نے میڈیا کے سامنے پیش کی اور میڈیا نے بھی اسے اسی طرح حاصل کرنے میں اپنا مفاد سمجھا۔ پولنگ کے دوران اپنے اداروں کے اخبارات کے ووٹروں کے درمیان ہونے کا فائدہ بی جے پی کے امیدواروں کو پہنچانے دیا۔ 10 اپریل کوشائع ہونے والے اشتہار محض اشتہار نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان اشتہارات کا اثر ووٹروں پر پڑ سکتا ہے ، اخبارات نے اس اشاعت کو کروڑوں کی رقم کے عوض قبول کر لیا۔اسی رجحان کااظہار ٹیلی ویڑن چینل این ڈی ٹی وی کی طرف سے 14 اپریل 2014 کو ووٹر سروے کے نتائج نشر کرنے کے طور پر بھی بار بار دکھائی دیتا ہے۔ عوامی نمائندگی قانون میں 126 بی کی تجویزکے تحت ووٹنگ مکمل ہونے تک ایگزٹ پول پر روک لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن چینل نے ایک غیرمعروف ریسرچ کمپنی ہنساکی طرف سے کروائے گئے رائے دہندگان سروے کا نام اوپینین پول دیا اور اس کے نتائج جاری کر دیئے جبکہ 111 علاقوں میں پولنگ ہو چکی تھا اور ان علاقوں کو بھی اس سروے میں یہ کہہ کر شامل بتایا گیا کہ یہ ایگزٹ پول نہیںبلکہ اوپینین پول ہے۔
 
بی جے پی اوپی نین پول کی حامی کیوں؟
اخبارات نے اپنے فیصلہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ چینل کی طرف سے جاری ووٹر سروے کو انہوں نے محض شائع ہی کیا ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کا یہ واضح موقف ہے کہ سروے نشر قانون کی خلاف ورزی ہے۔ کیا قانون کی خلاف ورزی کرنے والی کارروائی میں خود کو شامل کرنے کا فیصلہ قانون کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا ہے ؟اسی رجحان کو 24 اپریل کو بھی دہراتے دیکھا گیا۔ وارانسی میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کی نامزدگی کو دن بھر نشر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کے حق میں کیسے سونامی آ گئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی پارلیمنٹ کی کسی ایک سیٹ کے امیدوار نہیں ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار ہیں اور جن امیدواروں کی حمایت کا انتظار کر رہے ہیں وہ 117 علاقوں میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔پولنگ کا آخری مرحلہ باقی ہے اور اس دوران ووٹنگ کے موقع پر بڑے پیمانے پر نمائندگی قانون اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کیلئے کئی طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔اس میںنمایاں طور پر بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کا انٹرویو ووٹنگ سے قبل48گھنٹوں کے دوران نشرکیا گیا۔ کمپنیوں کی مصنوعات کے اشتہارات میں سیاسی تشہیر نظرآئی لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور میڈیا کی عصبیت ایک گہرے رشتہ کا احساس دلا رہی ہے ؟ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں میں صرف بی جے پی ایسی پارٹی ہے جو اوپینین پول پر پابندی کی حامی نہیں ہے۔ووٹنگ کیلئے تاریخوں کے اعلان سے قبل الیکشن کمیشن نے ایگزٹ پول کی طرح اوپینین پول پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا تھا اور بی جے پی کو چھوڑ کر تمام جماعتوں نے اس کے حق میں رائے دی تھی۔

 3 چیزوں کیلئے یاد کئے جائیں گے انتخابات :
صاف محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات میں میڈیا کیساتھ ان دنوں کیلئے بھی موثر تشہیر کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا۔ ووٹنگ سے 48 گھنٹے قبل انتخابی مہم سے دوسری پارٹیاں دور رہیں گی جبکہ پولنگ کے دوران ووٹنگ کے وقت انتخابی نشان تک کے استعمال پر پابندی کاانتظام ہے۔شاید عوام کیلئے ، عوام کے ذریعہ اور عوام کی جمہوریت میں یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ میڈیا سے پیداشدہ ووٹر یا ووٹرمینوفیکچرنگ تھرو میڈیا کلاس کے اصول پر مبنی انتخابات کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ وہاں الیکشن کمیشن کو قانون غیر فعال کرنے کا ایک قانون کام کرتا ہے۔ سبھی کی نگاہیں ایگزٹ پولوں کے نتائج پر مرکوز ہیںجبکہ انتخابات سے قبل ہی تمام ٹی وی چینل مودی کی جیت کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں ان چینلوں کی پیش گوئیاں اور ایگزٹ پولز کے نتائج کئی بار غلط ثابت ہوئے ہیں۔ میڈیا چینلوں کیخلاف کارروائی شروع نہ کرکے الیکشن کمیشن یہ اشارہ دیتاہے کہ اس کی کوتاہی ہے چنا? کے دوران الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ طریقہ سے چنا? کروانے کیلئے پابندعہدہوتاہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن نے نیوز چینلوں کیلئے کیوں یہ ہدایات جاری نہیں کیں اور اس کیخلاف ورزی پر وہ خاموش کیوں ہے؟پارلیمانی جمہوریت میں یہ انتخابات 3 چیزوں کیلئے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ اول ، یہ ملک کا پہلا انتخاب ہے جس میں کارپوریٹ میڈیا کی سب سے زیادہ فعال اور براہ راست حصہ داری ہے۔ دو م، دنیا کا سب سے مہنگا انتخاب ہے جبکہ سوم ، یہ میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق اورعوامی نمائندگی قانون کو توڑنے کے لحاظ سے ایسا انتخاب ہے جس کی مثال پیش کرنے سے ہندوستان کی تاریخ قاصر ہے۔

ایس اے ساگر

Last modified on پنج شنبه, 25 ارديبهشت 1393 19:43
Login to post comments