×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

کیسے ہیں سولویں لوک سبھا کے نمائندے؟

ارديبهشت 31, 1393 860

سولویں لوک سبھا میں بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں 543رکنی ایوان میں 335کی زبردست اکثریت کیساتھ لیس ہیں۔ اپوزیشن پوری طرح

ختم ہوگئی۔ اور کانگریس 44سیٹوں کیساتھ گھٹ کر نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود مودی کی قیادت والی سرکار کو قوانین اور اپنے ایجنڈے کے ذریعے آگے بڑھنے میں کسی مشکل کا سامنا کرنے کا امکان نہیں ہے لیکن راج سبھا میں بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے فکر کی بات یہ ہے کہ اس ایوان بالا میں اس کے ممبروں کی تعداد 123سے کافی کم ہے۔ اور اسے علاقائی پارٹیوں کی مدد درکار ہوگی۔ جو آنے کچھ دنو ں میں ایک مشکل انتخابی جنگ لڑ سکتی ہے۔ کانگریس ابھی تک 245رکنی راجیہ سبھا میں سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کے ممبروں تعداد 68ہے جبکہ بی جے پی کی صرف 46ارکان ہیں یہاں تک کہ اس کی حلیف جماعتیں بھی بہت پیچھے ہیں۔ بی جے پی صرف 65تک پہنچی ہے اور اسے اپنے بلوں کو پاس کروانے کیلئے دوسروں کی مدد درکارہوگی۔ اس لئے پارٹی کو انّا ڈی ایم کے ، ترنمول کانگریس جیسی جماعتوں پر تکیہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ معمولی اکثریت سے بہت پیچھے ہے۔ جبکہ راجیہ سبھا کے اراکین 2016میں ایک تہائی رٹائر ہوجائیں گے۔ اور اس وقت بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو ایوان کی اور زیادہ پسندیدہ شکل اختیار کرنے کی امید جسمیں اسمبلی انتخابات میں جیتنے والی حلیف جماعتیں درمیانی مدت کے دوران کچھ ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو اچھی خاصی مدد دے سکتی ہے۔ یہ چنا? ابھی حال ہی میں ہونے والے ہیں۔ یہاں تک کہ کانگریس کی قیادت والی یوپی اے کے 102ممبران راجیہ سبھا میں ہیں اور اتحادی جماعتیں بھارتیہ جنتاپارٹی اور دوسری جماعتوں کے رحم وکرم پر بلوں کی منظوری دے سکتی ہیں۔ اس لئے نریندرمودی اپنا تمام تر دبا? علاقائی پارٹیوں کیساتھ بات چیت کرکے میز پر لائیں گے۔ تاکہ یہ جماعتیں جنھوں نے عالیہ لوک سبھا چنا? کی مہم کے دوران زبردست بیداری کا مظاہر ہ کیاتھا۔ حکومت کیساتھ رجیہ سبھا میں مدد گار بن سکتی ہیں۔ اگر کوئی بھی راجیہ سبھا میں آتاہے تو مودی حکومت آرٹیکل 118کے تحت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س بلانے کیلئے صدر سے کہہ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کل اراکین کی تعداد 790ہوگی۔ ان میں سے لوک سبھا سے545جن میں دو نامزد ممبران بھی شامل ہیں اور راجیہ سبھا میں 245اراکین ہیں۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس لوک سبھا کے 335ممبروں کیساتھ 396کے آدھے آنکڑے پر طلب کیاجاسکتاہے۔ این ڈی اے کو آسانی کیساتھ کسی بھی بل کی منظوری کیلئے مزید 61کی ضرورت ہوگی۔ دوڑ دھوپ یہ ہے کہ آئینی ترمیمی بلوں کیلئے ایک مشترکہ اجلاس طلب نہیں کیاجاسکتاہے۔ راجیہ سبھا میں آج کی تاریخ میں انا ڈی ایم کے 10، ترنمول 12، بیجو جنتادل 6، بھارتیہ جنتاپارٹی 46، بورو لینڈ پیپلس فرنٹ 1، سی پی آئی 2، بہوجن سماج پارٹی 14، سی پی ایم 9، ڈی ایم کے 4، کانگریس 68، آزاد اور دیگر 9، انڈین نیشنل لوک دل 2،نیشنل کانفرنس 2، جے ڈی یو 9، جھارکھنڈ مکتی مورچہ 1، کیرالا کانگریس ایم این 1، لوک جن شکتی پارٹی 1، میزو نیشنل فرنٹ 1، این سی پی 6، نامزد 10، ناگالینڈ پیپلس فرنٹ 1، ریپبلیکن پارٹی آف انڈیا 1، شرومنی اکالی دل 1، سکم ڈیموکریٹک فرنٹ 1، سماجوادی پارٹی 9، شیوسینا 3،تلگودیشم پارٹی 6، اور ٹی آر ایس 1ہے۔ آئین کی دفعہ 80میں راجیہ سبھا کہ زیادہ سے زیادہ طاقت وضع کی گئی ہے۔ کیونکہ 250میں 12اراکین صدر کی جانب سے نامزد کئے گئے ہیں۔ اور 238ریاستوں کے نمائندے اور 2مرکز کے تحت انتظام والے علاقوں کے ہیں۔ راجیہ سبھا موجودہ طاقت اگرچہ 245ہے۔ اس میں 233ریاستوں اور مرکزی علاقوں دہلی پانڈیچری کے نمائندے 12صدر کی جانب سے نامزد اراکین ہیں۔

مسلم نمائندگی میں زوال:
ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں 16ویں لوک سبھا یا ایوانِ زیریں کئی اعتبارسے مختلف ہے جبکہ نتائج منظر عام پر آ چکے ہیں اور حکومت بننے کی تصویربھی بتدریج واضح ہو رہی ہے۔ سولہویں لوک سبھا میں چوتھی مرتبہ مسلمانوں کی نمائندگی کمترین رہی۔ اب تک کامیاب مسلم ممبران کی تعداد21ہے جس میں سب سے زیادہ مغربی بنگال کے 8مسلم ایم پی ہیں۔ ساتویں لوک سبھا میں1980میں49مسلم ممبران منتخب ہوکر آئے تھے۔ یہ تعداد دس فیصد کے قریب تھی۔ اس کے بعد1984میں آٹھویں لوک سبھا میں42مسلمان منتخب ہوکر آئے تھے۔ یہ دوسری سب سے بڑی تعداد تھی جو کہ8 فیصد کے قریب تھی۔مسلمانوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد (34)1977چھٹی لوک سبھا اور2004میں چودھویں لوک سبھا میں تھی جو کہ7فیصد کے قریب ہے۔ اس کے بعد اس کے1999میں تیرہویں لوک سبھا میں31اور2009میں30مسلم ممبران منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں آئے تھے۔ سولہویں لوک سبھا میں اب تک21مسلم ممبران کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان میں کشن گنج سے مولانا اسرارالحق قاسمی(کانگریس)‘ ارریہ سے تسلیم الدین(راشٹریہ جنتا دل)‘ کٹیہار سے طارق انور(نیشلسٹ کانگریس پارٹی)‘ کھگڑیا سے چودھری محبوب علی قیصر(لوک جن شکتی پارٹی)‘ آسام سے دونوں بھائی مولانا بدرالدین اجمل ، سراج الدین اجمل(آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ)‘ مغربی بنگال کے مالدہ جنوب سے ہاشم غنی خاں چودھری ، مالدہ شمال موسم نور ، مرشد آباد سے بدرالدجی(تینوں کانگریس) الوبیریا سے سلطان احمد (ٹی ایم سی)محمد سلیم(سی پی آئی ایم) ڈاکٹر ممتا ز برداوان سے،ادریس علی بارکپور،آفریں علی آرام باگ۔ لکشدیپ سے پی پی محمد فیصل ، جموں و کشمیر سے3ممبران پارلیمنٹ محبوبہ مفتی(اننت ناگ)‘مظفر حسین بیگ(بارہمولہ)طارق احمد کرا(سری نگر) تینوں پی ڈیمو کریٹک پارٹی اور حیدرآبار سے مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے اپنی کامیابی درج کروائی ہے۔

جرائم کے الزامات:
سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاست میں مجرمانہ سرگرمیوں کو ختم کرنے کے تمام بیانات کے باوجود 16ویں لوک سبھا کے541 میں سے 186 ایسے رہنما ہیں جن کیخلاف جرائم کے الزامات ہیں۔ان میں سے 112 تو ایسے ہیں جن پر قتل، اقدامِ قتل، فرقہ وارانہ تشدد، اغوا اور خواتین کیخلاف جرائم کے الزامات ہیںجبکہ پی آر ایس لیجس لیٹیو ریسرچ کے ذریعہ نو منتخب ممبران پارلیمان کے بارے میں کئے گئے سروے کے مطابق یہ تعداد 34 فیصد ہے۔دراصل ادارہ نے یہ تعداد نامزدگی کے وقت داخل کئے جانے والے حلف ناموں کی بنیاد پر تیار کی ہے۔تنظیم نے لوک سبھا کے 543 میں سے 541 ممبران پارلیمان کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا تھا۔

بی جے پی ہے آگے:
16ویں لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والے ممبران میں سے نو پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان میں سے چار ارکان بی جے پی کے ہیں جبکہ کانگریس، لوک جن شکتی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل کے ایک ایک رہنما پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔جھارکھنڈ کے جمشید پور سے بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ودیوت برن مہتو اور مہاراشٹر کے ستارا حلقے سے راشٹریہ وادی کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے شری منت چودھری، ادین راجے اور پرتاپ سنہا بھوسلے کے حلف نامے واضح نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تجزیہ نہیں کیا جا سکا۔ادارہ کے مطابق 15ویں لوک سبھا میں مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنے والے ممبران کی تعداد 158 تھی۔ اس وقت 521 ارکان پارلیمنٹ کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔قتل کی کوشش کے الزام کا سامنا کرنے والے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 17 ہے۔ ان میں سے10 ایم پی بی جے پی کے، 2ترنمول کانگریس کے، جبکہ کانگریس، این سی پی، راشٹریہ جنتا دل، شیوسینا اور سوابھیمانی پارٹی کے ایک ایک رکن پارلیمان شامل ہیں۔2ارکان کو خواتین کیخلاف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک کیرالا سے آزاد رکن منتخب ہوئے ہیں اور دوسرے مہاراشٹر کے چندرپور علاقے سے بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتے ہیں۔

فرقہ وارانہ رہنما:
فرقہ پرستی پھیلانے کے الزام کا سامنا کرنے والے ارکانِ پارلیمان کی تعداد 16 ہے۔ ان میں سے 12 بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتے ہیں تو ترنمول کانگریس، پی ایم کے، آل انڈیا مجلس اے اور اتحادالمسلمین کے ایک ایک ممبر پارلیمنٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ 16ویں لوک سبھا کے دس ممبران پارلیمنٹ پر چوری اور ڈکیتی کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں سے سات ایم پی بی جے پی کے ہیں، جب کہ راشٹریہ جنتا دل اور سوابھیمانی پارٹی کے ایک ایک رکن شامل ہیں۔بی جے پی کے تین، ترنمول کانگریس، لوک جن شکتی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل کے ایک ایک رہنما اغوا کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

مجرمانہ مقدمات:
اس طرح اگر دیکھیں تو بی جے پی کے 281 ممبران پارلیمان میں سے 98 (35 فیصد) پر مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں، وہیں کانگریس کے تمام 44 ممبران پارلیمنٹ میں سے آٹھ (18 فیصد)، اننادرمک کے 37 میں سے چھ (16 فیصد)، شیوسینا کے 18 ممبران پارلیمنٹ میں سے 15 (83 فیصد) اور ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے والے 34 میں سے سات (21 فیصد ) پر مجرمانہ معاملات چل رہے ہیں۔مزید برآں بی جے پی کے 63 (22 فیصد)، شیوسینا کے آٹھ (44 فیصد) کانگریس کے تین (سات فیصد)، اننادرمک کے تین (آٹھ فیصد) اور ترنمول کے چار ممبران پارلیمنٹ (12 فیصد) پر سنگین قسم کے مجرمانہ معاملات چل رہے ہیں۔

442 کروڑ پتی :
ہوسکتا ہے کہ یہ بات سننے میں عجیب لگے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ نئی ہندوستانی پارلیامنٹ میں 442 کروڑ پتی ‘امیرترین کے پاس 683 کروڑ کے اثاثے ہیں جبکہ اور اس میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بازی مار لی ہے۔ ان کے 237 رکن کروڑ پتی ہیں جبکہ تیلگو دیشم پارٹی اس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔کانگریس کے 35 اراکین کروڑ پتی ہیں جبکہ اناڈی ایم کے کے 29 اور ترنمول کانگریس کے 21 رکن کروڑ پتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمس نے جاری کئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق چندر بابو نائیڈو کی پارٹی تیلگو دیشم کے رکن جیے دیو گلا سب سے امیر ہیں اور ان کے پاس 683 کروڑ روپے سے زیادہ کے اثاثے ہیں۔ان کے بعد تلنگانہ متحدہ کمیٹی کے کونڈا وشیشور ریڈی کا نمبر آتاہے جبکہ تیسرے نمبر پر بی جے پی کے گوکراجو گنگا راجو کے پاس 288 کروڑ روپے کے اثاثے ہیں۔ تمام ممبران پارلیمنٹ کے پاس کل 6,500 کروڑ روپے کی جائیداد ہے۔لیکن کچھ غریب رہنما بھی اس لوک سبھا میں آئے ہیں۔ سیکر سے بی جے پی کیلئے منتخب سمیدھا نند کے پاس صرف 34,311 روپے کے اثاثے ہیں۔ بی جے پی کے ہی مہنت چاند ناتھ یوگی کے پاس 1,99 لاکھ روپے کی جائیداد ہے ‘ وہ الور سے جیتے ہیں۔

31 فیصد پرکیا ٹاپ؟
تعلیمی امتحانات میں بھلے ہی ایک تہائی سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو ناکام قراردیاجاتا ہولیکن سیاسی میدان کے کھلاڑیوں کو 31 فیصد ووٹ پر اقتداریا فرسٹ ڈویڑن نصیب ہوگئی ہے۔ان انتخابات میں بی جے پی نے بھلے ہی اپنے طور پر اکثریت حاصل کی ، لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب کوئی پارٹی محض 31 فیصد ووٹ پا کر لوک سبھا کی آدھی سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس سے قبل 1967 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے 40۔8 فیصد ووٹوں کے بل بوتے 520 سیٹوں میں 283 سیٹیں حاصل کی تھیں۔2014 کے لوک سبھا انتخابات کے اعداد و شمارنہایت عجیب تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف پارٹیوں کے درمیان ووٹ کس قدر منقسم ہوئے جبکہ بی جے پی ایک تہائی سے کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی اکثریت کے اعداد و شمار کو پار کر گئی۔ بی جے پی کل درست ووٹوں کے 31 فیصد پا کر 282 نشستیںحاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ 10 میں سے 4 سے کم ووٹروں نے این ڈی اے کو ووٹ دیا اور ایک تہائی ووٹروں نے بھی بی جے پی کو نہیں چنا۔ 19.3 فیصد والی کانگریس کو منتخب کرنے والوں کو تعداد اس سے بھی کم رہی۔ پانچ میں سے ایک سے بھی کم نے اسے ووٹ دیا۔

مقدر کے سکندر؟
کانگریس کی بدبختی یہ رہی کہ اسے ملے 19.3 فیصد ووٹ 44 سیٹ ہی دلا پائے ، جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی محض 18.5 فیصد ووٹوں سے 116 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ ان انتخابات کے دلچسپ اعداد و شمار یہ بھی ہیں کہ محض بی جے پی اور کانگریس دونوں کو ملا کر 50 فیصد ووٹ ملے ، یعنی دیگر تمام جماعتوں کے ووٹ کے مساوی ہیں۔اگر کانگریس اور بی جے پی کے ساتھیوں کے ووٹ بھی شامل کردئیے جائیں ، تو بھی ووٹوں کا بہت بڑا حصہ ان دونوں سے دور رہا۔ این ڈی اے کو کل درست ووٹوں کے 38.5 فیصد ملے ، جبکہ یو پی اے کے حصہ میں 23 فیصد سے کچھ کم آئے۔ دونوں کو ملا دیں تو 39 فیصد یعنی این ڈی اے کو ملنے والے ووٹوں کے برابر ووٹ دیگر پارٹیوں کے کھاتے میں گئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا این ڈی اے کو ملنے والے 38.5 فیصد ووٹ کسی حکمراں پارٹی یا اتحاد کو ملنے والے سب سے کم ووٹ ہیں ؟جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کانگریس کی قیادت والے یو پی اے1 نے 35.9 فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت قائم کی تھی۔ 1991 میں بننے والی پی وی نرسمہا راو ¿ کی اقلیتی حکومت کیلئے کانگریس کو 38.2 فیصد ووٹ ملے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یو پی اے 1 حکومت کو باہر سے بھی حمایت حاصل تھی۔
2004 میں کانگریس کی قیادت والے یو پی اے اتحاد کو 36 فیصد سے کچھ کم ووٹوں کیساتھ 220 نشستیں ملی تھیں۔ لیکن یو پی اے کو ایس پی ، لیفٹ اور پی ڈی پی کی حمایت ملی تھی۔ جن کے پاس تقریباً 11.2 فیصد ووٹ شیئر کیساتھ 100 نشستیں تھیں۔ اس طرح یو پی اے1 کیساتھ کل 320 ایم پی اور 47 فیصد ووٹ تھے۔اسی طرح 1989 میں کانگریس ( ایس ) ، جنتا دل ، ڈی ایم ، ٹی ڈی پی والے نیشنل فرنٹ نے 146 سیٹیں جیتی تھیں۔ انہیں 23.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس میں بی جے پی کی 85 نشستیں اور 11.5 فیصد ووٹ ، لیفٹ کی 52 نشستیں اور 10.2 فیصد ووٹ ملا دیں تو یہ کل 283 نشستیں اور 45.3 فیصد ووٹ شیئر بنتاہے۔1989 میں نیشنل فرنٹ نے 146 سیٹوں پر فتح حاصل کی جبکہ اس فرنٹ کو نصیب ہواجبکہ ووٹنگ حصص محض 23.8 تھا۔مختصر یہ کہ 2004 میں 36 فیصد ووٹ کیساتھ کانگریس نے 220 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔اس دوران یو پی اے کی حکومت تشکیل پائی جبکہ اتحادی جماعتوں کو ملنے والی320 سیٹوں کے مقابلہ میں ووٹنگ فیصد 47 فیصد تھا۔
 
انڈرمیٹرک اورخواتین کو عروج:
 اس ایوان میں خواتین نے زیادہ تعداد میں منتخب ہونے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جبکہ اس ایوان میں ایسے ارکان پارلیمان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جنھوں نے 10جماعتیں بھی پاس نہیں کی ہیں۔گریجویٹ نمائندوں کی تعداد بھی پہلے کے مقابلے کم ہوئی ہے اور نوجوان ووٹروں کی بڑی تعداد کے متواتر ذکر کے باوجود عمر کے لحاظ سے سولھویں لوک سبھا پہلے سے زیادہ معمر ہوگئی ہے۔پی آر ایس لیجس لیٹیو ریسرچ نے لوک سبھا کی تمام 543 سیٹوں کی پروفائل کا مطالعہ کر کے ایک فہرست جاری کی ہے جس سے ہندوستان کی نئی پارلیمان پوری صورت میں سامنے آتی ہے۔اس ریسرچ کے مطابق اس بار انتخابات میں کل 61 نشستیں ایسی ہیں جہاں سے خواتین امیدوار کامیاب ہوئی ہیں جو مجموعی شرح کا تقریباً 11 اعشاریہ 3 فیصد ہے۔ اگرچہ 15 ویں لوک سبھا کے مقابلہ خواتین ارکان پارلیمان کی تعداد میں محض 3 سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔1952 میں ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات میں خواتین کا تناسب5 فیصد تھا جو 1984 کی آٹھویں لوک سبھا میں8 فیصد تک پہنچا جبکہ 2009 کی 15 ویں لوک سبھا میں یہ تناسب بڑھ کر 11 فیصد ہو گیا۔

معمروں کا غلبہ:
ملک میں نوجوان ووٹروں کی بڑی تعداد کے باوجود اس بار ایسے ایم پی کی تعداد زیادہ ہے جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہے۔ ان کی مجموعی تعداد 253 ہے جو کہ کل ارکان پارلیمان کا 47 فی صد ہیں۔جب کہ 15 ویں لوک سبھا میں 55 سال سے زیادہ عمر کے رکن پارلیمان کی تعداد 43 فیصد تھی۔سولھویں لوک سبھا میں منتخب ہونے والے صرف 71 ارکان پارلیمان ایسے ہیں جن کی عمر 40 سے کم ہے اور وہ کل تعدا کا تقریبا 13 فی صد ہیں۔اس بار پارلیمان کیلئے منتخب ہونے والے 75 فی صد ارکان ایسے ہیں جن کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہے۔ گذشتہ ایوان میں یہ تناسب 79 فی صد تھا۔

کاروباری ارکین میں اضافہ:
ایسے منتخب ارکان کا تناسب جو دسویں پاس بھی نہیں، 3 فی صد سے بڑھ کر 13 فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ میٹرک پاس ارکان کی تعداد 17 سے کم ہو کر 10 فی صد رہ گئی ہے۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے ممبران پارلیمان کی تعداد میں پہلے سے 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ لوک سبھا سے موازنے میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس بار ایسے پارلیمانی ارکان کا فی صد تناسب 15 کے مقابلہ 20 ہو گیا ہے جنھوں نے کاروبار کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بتایا ہے۔خود کو کاشتکار قرار دینے والوں کے تناسب 27 فیصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پندرھویں لوک سبھا میں 28 فیصد ممبران پارلیمنٹ نے سیاست اور سوشل ورک کو اپنا پیشہ بتایا تھاجبکہ اس مرتبہ یہ تناسب 24 فی صد ہے۔پہلی لوک سبھا میں 36 فیصد ارکان پارلیمان کا پیشہ وکالت تھا جبکہ نئی لوک سبھا میں یہ فی صد کم ہو کر 7 رہ گیا ہے۔دیگر شعبوں کے حوالہ سے 16 ویں لوک سبھا میں ایک فیصد ارکان صحافی یا لکھنے سے وابستہ ہیں، 3 فیصد ایم پی شعبہ تعلیم سے جبکہ4 فیصد ایم پی میڈیکل کے شعبہ سے آئے ہیں۔

ایس اے ساگر

Login to post comments