×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

پارلیمانی انتخابات اور ہم

ارديبهشت 31, 1393 567

حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سب کے لئے حیران کن تھے۔ مسلمانوں سے زیادہ بڑی پارٹیوں اور خود بی جے پی کو ایسے نتائج کی امید نہیں تھی۔

ان نتائج کی وجہ سے زیادہ مایوسی میڈیا کے اس رویہ سے ہے جو صبح و شام بی جے پی اور مودی کی ـ’’لہرـ" اور"تاریخی ‘‘ جیت کی بات کررہا ہے حالانکہ یہ سب حقیقت سے بہت دور ہے۔
موجودہ انتخابی نتائج کسی طرح سے نہ غیر معمولی ہیں اور نہ ہی ایسا پہلی بار ہواہے۔اس باربی جے پی کو الیکشن کمیشن کے مطابق ۳۱ فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ کانگریس کو 19.3  فیصد لیکن دونوں کی سیٹوں میں بہت فرق ہے۔ بی جے پی کو ۲۸۲ سیٹیں ملیںاور کانگریس کوصرف ۴ ۴ جو کہ در حقیقت ہمارے انتخابی نظام کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ اس نظام کے تحت اگرچہ بیس امیدوار ۹۰ فیصدووٹ حاصل کرتے ہیںلیکن اکیسواں امیدوار صرف دس فیصد یا اس سے بھی کم پر کامیاب قرار دیا جاتا ہے اور باقی سب ووٹ بیکار قرار پاتے ہیں۔ بہت سے ملکوں نے اس نظام کوخیرباد کہہ کر تناسبی نمائندگی (Proportional representation) کے نظام کو اپنایا ہے جسمیں ہر پارٹی کو اتنی ہی سیٹیں ملتی ہیں جتنے اس کو پورے ملک میں ووٹ ملتے ہیں۔ خود بی جے پی پچھلے دنوں اسی ’’تناسبی نمائندگی‘‘ کا مطالبہ کرتی رہی ہے کیونکہ اُس وقت اُس کو موجودہ نظام سے نقصان ہوتا تھا۔ ضرورت ہے کہ پارٹیاں اور سوسائٹی سب مل کر عادلانہ اور منصفانہ انتخابی نتائج کے لئے ’’تناسبی نمائندگی‘‘ کا مطالبہ کریں جو کہ بہت سے ملکوں میں رائج ہے مثلاً جرمنی، سویزرلینڈ ، فنلینڈ، لاتویا، سویڈن، اسرائیل، برازیل، ہالینڈ، روس، جنوبی افریقہ، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور یورپین یونین وغیرہ۔
موجودہ حکومت آزادی کے بعدپہلی حکومت ہے جو سب سے کم ووٹ ملنے کے باوجود سرکار بنا رہی ہے ۔موجودہ الیکشن میں کل رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف 66.48  فیصد لوگوں نے ووٹ دیاہے جسمیں سے ۳۱ فیصدووٹ بی جے پی کو گیا ہے یعنی بی جے پی کو تمام رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف ۲۱ فیصد کا ووٹ ملا ہے ۔ اور اگر اس حقیقت کو ہندوستان کی صد فیصد آبادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بی جے پی کوآبادی کے صرف ۱۲ فیصد حصے کی تایید حاصل ہے ۔ ظاہر ہے کہ ۳۱ فیصد یا ۲۱ فیصد یا ۱۲ فیصد کسی طرح سے نہ’’ لہر‘‘ ہیں اور نہ ہی ’’تاریخی‘‘۔
اگرہمارے یہاں منصفانہ تناسبی نمائندگی ہوتی تو موجودہ انتخابات میں آج بی جے پی اپوزیشن میں بیٹھتی ، کانگریس اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر سرکار بنارہی ہوتی اور مودی گاندھی نگر میں اپنے زخموں پر مرہم لگارہے ہوتے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے چند بار سے ہمارے یہاں الیکٹرانک مشینیں ووٹنگ کے لئے استعمال ہورہی ہیں جن کی کارکردگی کے بارے میں دنیا کے بہت سے ملکوں میں شکوک ہیں کہ ان سے بہت آسانی سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے ۔ ۲۰۰۰؁ میں فلوریڈا (امریکہ) میں ایسا ہی ہواتھا اور اس کے بعد سے امریکہ میں یہ مشینیں استعمال نہیں کی جارہی ہیں۔ ان مشینوں میں جو ووٹ پڑے ہیں ان کو کسی طرح سے دوبارہ چک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر نے اس بار پوری طرح دامے، درمے ،سنخے مودی کی مدد کی ہے، اور یہی وہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو یہ مشینیں بناتا ہے اور سروس بھی کرتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ضرور ان میں چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ہمیں مختلف علاقوں سے اطلاع ملی ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ جس طرح سے وہاں ووٹنگ ہوئی ہے، نتائج اس کے خلاف آئے ہیں۔ بی بی سی (۱۸ مئی) کے مطابق ابھی امریکہ میں تجربہ ہواہے کہ ہندوستانی ووٹنگ مشینوں سے چھیڑچھاڑ ہو سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ کی اعلی ترین سطح پر بین الاقوامی تجربہ کارلوگوں کی موجودگی میں جانچ کرائی جائے۔
تیسرا مسئلہ اس انتخابی عمل میں بے تحاشہ پیسے استعمال کرنے کا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسمیں مودی نے صرف اشتہارات اور پیڈ نیوز کے لئے دس ہزارکروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو تین ہزار پیڈ نیوز کی شکایتیں آئی ہیں۔ جس طرح مختلف چینل صبح وشام مودی مودی کرتے تھے، اس نے اس انتخابی عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن اور پریس کاؤنسل آف انڈیا دونوں اس انتخابی عمل میں پیڈ نیوز کے بارے میں تحقیقات کر کے عوام کو باخبر کریں اور قانون کے مطابق ہر اس امیدوار کے خلاف کارروائی کریں جو پیڈ نیوز میں ملوث پایاجائے۔
چوتھا مسئلہ اس انتخاب میں ہندوتوا کے بے دریغ استعمال کا ہے جو کہ ہندوستان کے سیکولر نظام کی دھجی اڑاتا ہے۔ متنازع بیانات، فسادات، افواہوں اور صریح جھوٹ سے ہندوؤں کو ایک متنازع فکر کے لئے جمع کیا گیا ہے جوسب فکر سمیت غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ الیکشن کمیشن اس طوفان کو روکنے میں بالکل ناکام رہاہے۔ ضرورت ہے کہ اس کیس کو اچھی طرح تیار کرکے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
انتخابات میں مسلمانوں اور بالخصوص مسلم تنظیموں اور دینی رہنماؤں کے رول کے تئیں میڈیا، بالخصوص اردو پریس میں، مختلف باتیں آرہی ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گو یا ان تنظیموں اور دینی رہنماؤں نے مسلم عوام کو غلط راہ پر ڈالا اور جو نتیجہ آیا ہے وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ جن مسلم رہنماؤں نے بی جے پی سے ہاتھ ملایا اور ان کی تایید میں بیانات دئے، ان کے بارے میں تو یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے، لیکن دوسرے لوگ جنہوں نے فسطائیت کے طوفان سے خبردار کیا تھا، جن کے سامنے بی جے پی، مودی اور امیت شاہ کا چہرہ سامنے تھا، جن کے سامنے گجرات ۲۰۰۲ اور گجرات میں مودی ؍امیت شاہ کے ہاتھوں ۲۱ انکاؤنٹر اور ’’گجرات ماڈل‘‘کے حقائق تھے، وہ کیسے کوئی اور مشورہ دے سکتے تھے۔
مودی اور ہندوتوا کا آنا صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کے لئے مسئلہ ہے۔ اور اس کو اسی عمومی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ فسطائیت کے آنے سے سب متاثر ہوں گے۔ ممکن ہے کہ مسلمان اور عیسائی زیادہ متاثر ہوں، لیکن فسطائیت ایک ایسی آندھی ہے جو لوگوں میںبہت زیادہ فرق نہیں کرتی ہے۔ اس نظام میں ہٹلر اور موسولینی جیسا لیڈر جو کہتا ہے اس کی پوری قوم کو آنکھ بند کرکے اتباع کرنی پڑتی ہے۔
ہمارے سامنے یقینا ایک تاریخی چیلنج ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مودی پہلے جیسے نہیں رہے۔ سب کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سب کے لئے خوشی کی بات ہوگی اور سب لوگ ،مسلمان سمیت، ملک کی بھلائی کے لئے اس طرح کے سیاسی ماحول میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ لیکن ’’گجرات ماڈل‘‘ نے جو پچھلے تیرہ سالوں میں ہمیں جوبتایا ہے وہ اس سب کے برعکس ہے۔ وہاں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی خوف کے اندر جیتے ہیں۔ وہاں سوال کرنے اور مخالفت کی آزادی نہیں ہے بلکہ فسطائی نظام کی طرح صرف تایید کرنے کی آزادی ہے۔ اگر ایسا پورے ہندوستان میں ہوتا ہے تو یہ صرف مسلمانوں کی لڑائی نہیں ہوگی۔یہ سب کا مسئلہ ہوگا اور ہم سب ساتھ مل کر اس لڑائی کو حقیقی جمہوریت اور حقیقی آزادی کے لئے لڑیں گے۔
مسلمان مشکلات سے نہیں گھبراتا ہے۔ اس کی لغت میں ۵۔۱۰ سال کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اس قوم نے بڑے بڑے طوفان دیکھے ہیںَ ۔ تاتاریوں اور صلیبیوں کو دیکھا ہے اور ان پرفتح پائی ہے۔ہم انشاء اللہ ہمت اور مردانگی کے ساتھ موجودہ چیلنج کے مقابلے میں بھی سرخروہونگے۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ

Login to post comments