×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

بوکو حرام کی بدمعاشی

خرداد 01, 1393 627

نائجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے200اسکولی بچوں کو اغوا کرکے اور پھر انہیں فروخت کردینے کی دھمکی  دے کر پوری دنیا میں

تہلکہ مچادیا ہے اس واردات کا تقریباً ایک ہفتہ  گذر گیاہے مگر ان بچیوں کی رہائی  کے سلسلہ میں کسی پیش رفت کی اطلاع نہیں ملی  ہے اس  دہشت گرد گروہ کے سر براہ ابوبکر شکاؤ کی جانب سے تازہ ترین بیان  یہ آیا ہے کہ وہ ان بچیوں کو اس وقت تک قید رکھیں گے  جب تک ان کے ساتھیوں کو رہا نہیں کردیا جاتا۔
 ایجنسیوں سے موصول اطلاع کے مطابق  نائجیریا کے بورنو صوبے کے گورنر نے کہا تھا کہ انھیں مغوی لڑکیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ بورنو کے گورنر قاسم شٹیما نے کہا تھا کہ انھوں نے لڑکیوں کے دیکھے جانے کی معلومات فوج کو فراہم کر دی ہیں تاکہ ان کی تصدیق کی جا سکے۔شٹیما نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں لڑکیوں کو سرحد پار دوسرے ممالک چاڈ یا کیمرون نہیں لے جایا گیا ہے۔اس سے قبل فرانس کے صدر نے بوکوحرام کے بارے میں ایک کانفرنس کی میزبانی کی پیش کی تھی۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا: ’میں نے مشورہ دیا تھا کہ نائجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن اور نائجیریا کے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک اجلاس ہو۔ اگر تمام ممالک راضی ہوں تو آئندہ سنیچر کو یہ اجلاس منعقد کیا جا سکتا ہے۔‘ اس میں نائجیریا کے پڑوسی ممالک نائجر، چاڈ اور کیمرون کو سکیورٹی کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا۔  اس میٹنگ میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی شمولیت کے بھی قوی امکانات ہیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے پہلے سے ہی نائجیریائی حکومت کو تکنیکی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ دریں اثنا صدر جوناتھن نے کہا ہے کہ ’انسداد دہشت گردی کی ایک اسرائیلی ٹیم طالبات کی تلاش میں تعاون کرنے کے لیے نائجیریا آنے والی ہے۔‘ یاد رہے کہ گذشتہ سال فرانسیسی فوج القاعدہ سے وابستہ جنگجوؤں کو پسپا کرنے کے لیے مالی میں داخل ہوگی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ دونوں نے اپنے فوجیوں کو شمالی نائجیریا کے وسیع علاقے میں روانہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اتوار کو کہا کہ ’اس مرحلے پر امریکی فوجیوں کو وہاں اتارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘ دارالحکومت ابوجا اور دیگر شہروں میں لڑکیوں کی بازیابی کے لیے مظاہرے جاری ہیں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ یہ بعید از قیاس ہے کہ نائجیریا برطانوی فوج کی مدد طلب کرے گا۔ تاہم انھوں نے کہا: ’میں نے صدر جوناتھن سے کہا ہے کہ اگر کوئی مدد کر سکتا ہوں تو آپ مجھے ضرور بتائیں اور پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘ امریکہ کی خاتون اول مِشیل اوباما نے کہا ہے کہ وہ اور ان کے شوہر صدر براک اوباما ’لڑکیوں کے اغوا پر غصے اور رنج میں ہیں۔‘  واضح  ہو کہ بوکو حرام نائجیریا کے خلاف سنہ 2009 سے برسرپیکار ہے۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کس طرح بوکوحرام گروپ ایک خطرناک شدت پسند تنظیم میں تبدیل ہو گیا۔ بوکوحرام تنظیم نے چھوٹے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس میں حملے کر کے فرار ہونا شامل تھا۔ اپنے مخالفین کو سفاک انداز میں ہلاک کرنے کی زیادہ تر کارروائیوں میں موٹر سائیکل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر لوگ نمایاں اسلامی رہنما شامل تھے۔ جب یہ گروپ زیادہ بے خوف ہوا تو اس نے گرجا گھروں، پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ اس نے بڑے حملوں میں نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور وفاقی پولیس کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا۔ بوکوحرام تنظیم نے شمالی نائجیریا میں پولیس کے متعدد تھانوں اور فوجی بیرکوں پر حملے کیے اور وہاں سے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں لوٹ کر لے گئے۔ لوٹی گئیں گاڑیوں اور وردیوں سے اس کے کارکنوں نے بھیس بدل کر اور زیادہ تباہی پھیلائی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی بینکوں پر حملے کیے اور ان میں سے بعض دن دیہاڑے کیے گئے۔ کئی بینکوں سے لاکھوں نائرا (مقامی کرنسی) لوٹے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔ اس کے بعد فوج نے مقامی نوجوانوں کی مدد سے میدوگری کے علاقے سے بوکوحرام کی محفوظ پناہ کو ختم کر دیا۔ نوجوانوں کی اس مقبول ٹیم کو اب سویلین جوائنٹ فورس کہا جاتا ہے۔ بوکوحرام نے اس نقصان کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت عام شہریوں کو نقصان پہنچانے پر توجہ مرکوز کر لی۔ اس نے کئی دیہات کو نذرِ آتش کر دیا اور اس میں 15 سو کے قریب لوگ مارے گئے۔ اس کے علاوہ ان حملوں میں  اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ان حملوں میں صرف طلبہ کو ہلاک کیا جاتا اور طالبات کو چھوڑ دیا جاتا تھا، لیکن اب حال ہی بوکو حرام نے طالبات کو اغوا کرنا شروع کر دیا ہے۔ شاید اس تنظیم کے ارکان کو اندازہ نہیں کہ دنیا اس کو کس طرح سے دیکھ رہی ہے۔ بوکوحرام اسلام کے ایسے سخت گیر نظریے کی پیروی کرتا ہے جو مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی مغربی طرز کی سیاسی یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتا ہے۔ اس میں انتخابات میں حصہ لینا، ٹی شرٹیں پہنا یا سیکولر تعلیم حاصل کرنا بھی شامل ہیں۔
اس طرزِ عمل کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ 19ویں صدی میں شمالی نائجیریا، نائجر اور جنوبی کیمرون پر سوٹوکو خلافت کی حکومت تھی۔ 1903 میں برطانیہ نے سوکوٹو خلافت کو شکست دے کر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ مغربی تعلیم کے خلاف مہم اسی وقت سے جاری ہے۔ بہت سے مسلمان اپنے بچوں کو مغربی طرز کے سرکاری سکولوں میں نہیں بھیجتے۔ ان حالات میں ایک مسلم مذہبی عالم محمد یوسف نے میدوگری کے شہر میں سنہ 2002 میں بوکوحرام کی بنیاد رکھی۔ اس کا لفظی مطلب ’مغربی تعلیم حرام‘ ہے۔ انھوں نے ایک مسجد بنائی جس کے احاطے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔نائجیریا اور ہمسایہ ممالک کے بہت سے غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسے میں بھیجنا شروع کر دیا۔لیکن بوکوحرام کی دلچسپی صرف تعلیم تک محدود نہیں تھی۔ ان کا سیاسی ہدف ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہ مدرسہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے جہادیوں کو بھرتی کرنے کا مرکز بن گیا۔  اسلام  کے نام پر دہشت گردی  پھیلانا چاہے وہ کسی بھی خطہ اور ملک میں ہو اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اس کی رسوائی کا سامان ہے اس سلسلہ کو فوراً بند ہونا چاہئے اور اسلام کی اصل تعلیم کے فروغ کی کوشش کی جانی  چاہئے
(عبید اللہ ناصر)
(مضمون نگار روزنامہ’ قومی خبریں‘  لکھنؤ کے ایڈیٹر ہیں)

Last modified on پنج شنبه, 01 خرداد 1393 12:06
Login to post comments