کی قیاس آرائیوں کو full stop دے دیا۔ایک بار پھر وہ کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ ’’جھوٹ کواتنی بار دہراؤکہ وہ سچ لگنے لگے۔الیکٹرانک میڈیا نے مودی کو اتنا پروسا کہ ملک کی عوام نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کی مسند تک پہنچا دیا۔کئی علاقائی پارٹیوں کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔کانگریس کی سواسو سالہ تاریخ میں یہ اس کی سب سے بڑی شکست ہے ۔اس حقیقت سے انکا رنہیں کیاجاسکتا کہ نریندر مودی کی جیتدراصل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی مرہون منت ہے۔
26 ؍مئی کو نریندر بھائی مودی بھارت کے 23ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیں گے۔آزادی کے بعدسالوں میں 13سالو ں کو چھوڑ کر 53سال تک کانگریس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور کانگریس کی بنیاد جس گاندھی- نہروگھرانے پرقائم ہے ،او ر یہ عام ْخیال ہے کہ اس گھرانے کے علاوہ ملک کو چارہ کار نہیں ۔ اس ذہنیت سے ملک کو ا ٓزاد کرانے کا کام نریندرمودی نے کردکھایا۔ نریندر مودی چار مرتبہ گجرات کے وزیر اعلی رہ چکے ،اس 63سالہ آزادی کے بعد کی پیدوار نے وہ کرشمہ کردکھایا کہ کانگریس کی ہوا نکل گئی اور اس کا دماغ ٹھکانے پر آگیا ۔خصوصاََ مہاراشٹر کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس لیڈر ان کے دماغ تو ساتویں آسمان پر تھے ،حکومت و دولت کے نشے میں وہ چور تھے،حکومت و دولت کے مستی ان پر چڑھی ہوئی تھی،ان کی باڈی لینگویج کودیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ممبئی کے بھائی لوگ ہیں؟
مودی کس ذات کے ہیں وہ بھی الیکشن کے موقع سے سامنے آگئی ہے ۔ وہ گجرات کی مشہور برادری گھانچی (تیلی ) تعلق رکھتے ہیں۔تیلی کے بارے میںبہت سی کہاوتیں اور مثالیں ہیں، ایک تیلی نے کانگریس کا پورا تیل نکال دیا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ تیلی بہت ہوشیار ہوتا ہے ،وہ جب تل کا تیل نکال سکتا ہے تو کانگریس کا تیل نکالنا اس کے لیے کیا مشکل ہے ۔ تیلی تیل میں پانی ڈال کر چرا غ روشن کرتا ہے۔جسے عام طور پر ’’تیل پانی کا گلاس ‘‘کہاجاتاہے-یہ کہاوت بھی عام ہے کہ تیل دیکھوتیل کی دھار دیکھو،یہ محاورہ کے معنی ہے خوب غور کرو ،تامل کروپھرفیصلہ کرو۔مراہٹی میں یہ کہاوت کہ صبح صبح تیلی کا منھ دیکھنے سے دن بھرکے کام خراب ہوجاتے ہیں،کانگریس نے نریندر مودی تیلی کا منھ دیکھ لیاتھا اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔
30سال کے بعدملک میںکسی ایک سیاسی پارٹی کو اکثریت ملی ہے۔اس الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اب تک ایک تہذیبی،غیر سیاسی تنظیم کہہ جانی والی آرایس ایس کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ آر ایس ایس نے الیکشن کے بعد پریس کانفرنس منعقد کی اور اس میں اپنے خیالات و نظریات کو واضح کیاہو۔
پانی اگر بہت دنوں تک، ایک جگہ جمع رہے تو اس میںبدبوپیدا ہوجاتی ہے۔اس میںجراثم بھی پیدا ہوجاتے ہیں،بدبواور تعفن سے پورا علاقہ اورآس پاس رہنے والے لوگ بھی عاجز آجاتے ہیں ،اس صورتحال سے بچنے کے لیے علاقہ کے لوگ پانی کو بدل دیتے ہیں ۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال سے کانگریس پارٹی کا حال ہوگیا تھا۔ بھارت کی جنتا نے ،کانگریس کی جگہ اور اس کی قیادت کوپش پست ڈال کر ایک نئے دم نئے عزم وحوصلے والے سپنوں کے سوداگر کو ملک کا چوکیدار بنا دیا ہے۔ بی جے پی گرچہ کے اپنے بل بوتے پراقتدار میںا ٓگئی ہے اور اس کو مکمل اکثریت حاصل ہے۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بی اے پی کو بھارتی عوام نے مکمل حمایت کی ہو۔بی جے پی کے پیچھے تقریباََ 17کروڑ 16 لاکھ عوام ہے۔(یعنی کل ووٹ کا 31%)اس حقیقت کے باوجود کانگریس کو بھی تقریباََ 10کروڑ 70لاکھ رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔بی جے پی کی قیاد ت والی N.D.Aکو کل 35%رائے دہندگان کی حمایت کے باوجود 60%سے زائد رائے دہی کرنے والی رائے دہندگان نے بی جے پی اینڈ کمپنی کو ٹھکرادیا ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔اس صورت حال سے آرایس ایس اور بی جے پی خیمہ میں ہڑبڑا ہٹ پیدا ہوگئی ہے۔60%تا65%عوام نے جن میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جس نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا ہے ، ان کو فرامو ش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کامسئلہ :مسلمانوں کو اس خوش گمانی و خوش فہمی سے نکلنا ہوگا کہ ’’ ہم کنک میکر ہے king meker ہے ،ہم جس پارٹی کے بھی جھولی میںووٹ ڈالیں گے وہ حکومت بنائی گی!۔یاپھر مسلمانوںکا یہ سوچنا کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا! ۔نریندر مودی کے خلاف کانگریس اور دیگر سیاسی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ایسا باور کرایا کہ ’’مسلمانوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا تو مودی آجائے گا!!،اسلام اور مسلمان خطرے میںپڑ جائیں گے۔عجیب عجیب طرح کے خوف واندیشوں نے مسلمانوں کو گھیر لیاتھا۔ وہ اترپردیس جہاں مسلمانو ں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔جہاں ملک کے بڑے بڑے دینی مدارس ہیں،تقریباََمسلمانوں کی دینی ،ملی ،مذہبی،سیاسی ،معاشی تنظیمیںمیدان میں ہیں ان سب کی موجودگی میںکسی بھی پارٹی سے ایک بھی مسلمان پارلیامنٹ تک نہیں پہنچا ،اس پرسنجیدگی سے غور کیاجانا چاہئے۔
ذات پات کی سیاست : یہ کہا جارہا ہے کہ ملک میںذات پات کی سیاست اس مرتبہ نہیں چلی ،صرف مودی لہرہی چلی ہے جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی بساط ہی پلٹ گئی ۔انتخابات میں گھڑ جوڑ کرتے وقت مودی نے سیاسی کھیل کھیلاہے اس کو نہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔بہار میں اس نے رام ولاس پاسوان ،اترپردیش میںاپنا دل ،مہاراشٹرمیںرام داس اٹھولے،آندھراپردیش میںکمّاسماج کی حمایت حاصل چندربابو نائیڈوکی تیلگودیشم پارٹی سے اتحاد کرنے کی بات ہو یا آندھرا27%فیصد آبادی والے کاپوسماج کے ہردلعزیز لیڈر کے پون کلیان کو بی جے پی اور تیلگو دیشم کے لیے انتخابی مہم چلانے کی بات۔آج تک بی جے پی کے بارے میں یہی کہاجاتارہا ہے کہ وہ برہمن اور تجارت پیشہ لوگوں کی پارٹی ہے ،بی جے پی نے پہلی مرتبہ تیلی سماج میں پیدا ہونے والے او بی سی نریندرمودی کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا ایسا باور کرایا گیا کہ مودی کی شکل میں ملک کا پہلااو بی سی لیڈر وزیر اعظم بننے جارہا ہے،اس طرح خفیہ اورجارحانہ پرچار ملک بھر خصوصاََاترپردیش میں کیاگیا۔جس کے بنا پر بی ایس پی،ایس پی،جنتادل (یو)راجد کے ا و بی سی ووٹ بینک میںشگاف پیداکرنا ا ٓسان ہوسکا ۔ مودی نے جنو ب ہند کی ریاستوں پر پوری توجہ دی۔کرناٹک کے سابقہ وزیر اعلی کو دوبارہ بی جے پی لایا گیا۔آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی سے سمجھوتہ کیاگیا۔
مودی کی کامیابی میں جہاں میڈیا کا اہم کردار رہا ہے ،وہاںآرایس ا یس کیڈر کا کلیدی رول بھی رہا ہے ۔ آر ایس ایس کی سینکڑوں تنظیمیں ا س میںرات دن کام کررہی تھیں،بنارس کی صورتحال سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔جس ڈھنگ اور پلاننگ کے ساتھ آر ایس ایس اور کے ورکروں نے کام کیااس طرح کا کام کسی بھی سیاسی پارٹی کو ممکن نہیں ہوسکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی اکثریت آج بھی ہندوراشٹر کا خواب دیکھنے والوں کے ساتھ نہیں ہے ۔ورنہ 333کے بجائے 500سیٹوں پر N.D.Aکا قبضہ ہوتا۔
مسلمانوںکو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیںہے۔جن پارٹیوں کو شکست فاش ہوئی ہے یا جن لیڈروں کی ہار ہوئی ہے وہ خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں ۔وہ اپنے سیاسی مستقبل کے ایک بار پھر حرکت میںا ٓئیں گے ۔مایاوتی ،ملائم سنگھ،نتیش کمار،لالو پرشاد یادو،شردپوار و دیگر کئی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاںو لیڈران بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔اب مسلمانوں کا کام یہ ہوگا کہ وہ اپنی گزشتہ روش و پالیسی کو بدلیں ،ان سیاسی پارٹیوں سے برابر کی حصہ داری کی بات کریں،آبادی کے تناسب سے سیٹوں کی مانگ کریں ۔ مہاراشٹر میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اس میں کسی بھی طرح کی غفلت یا کوتائی نہ برتیں ،کسی دباؤ یا سیاسی وعدوں امیدوںپر یقین نہ کریں ۔ یہ اگر کرتے ہیں تو وہ کامیاب ہوں گے ۔
آخر میں پھر میں اپنی بات تیلی کی مثال دیکھ کر ختم کرتاہوں کہکولھوکا بیل کتنا بھی چلا تو شام کو وہ جہاں سے چلا تھا اسی جگہہ کھڑا ملتا ہے ،ایک اور کہاوت ہے کہ ’’کولھوکے بیل کو گھر ہی کوس پچاس یا کولھوکے بیل کو گھر ہی میں منزل ہے۔ان مثالوں کو سامنے رکھ کر شمستقبل کی پلاننگ کجیئے ۔*صدر آل مہاراشٹر مسلم تیلی سماج اورنگ آباد ،مہاراشٹر۔
مرزاعبدالقیوم ندوی
تازہ ترین