×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

بوڑھے کندھوں کی سواری سے فتح نہیں ہوںگے !

خرداد 03, 1393 658

جب دوپہلوان اکھاڑے میں اتریں توان میں سے کسی ایک کی ہارجبکہ دوسرے کی جیت طے ہوتی ہے۔مگرعقلمند پہلوان اسے ہی کہاجاتاہی

 جو پسپائی کے بعداپنے ساتھیوں اوردیگرمعاونوں پرغصہ ظاہرکرنے اور دوسرو ں کوذمہ دارٹھہرانے سے زیادہ اپنی کمیوں اورکوتاہیوں پرتوجہ کرے، کہا ں اور کیا کمی رہ گئی، اسے دورکرے اورآئندہ کی کامیابی کیلئے خودکوپوری طرح مضبوط کرے ۔ یہی طریقہ ٔ کارعظیم جمہوری ملک کے انتخابات میںشکست سے دو چا ر ہو نے والی جماعتوںکوبھی اپنانے کی ضرورت ہے۔اگرکوئی جماعت عوام کااعتمادحاصل کرنے میں نا کا م ہوجاتی ہے تواسے اپنی شکست کاٹھیکرادوسروںکے سرپھوڑنے سے زیادہ اپنااحتساب کرناچاہئے اورایک ایک غلطی کی نشاندہی کرکے اسے دورکرنے میںسرگرم ہوجاناچاہئے۔جب ہم اس پس منظرمیںعام انتخابات 2014 میں سیکولر جما عتو ں با لخصو ص ان جما عتو ںکی پسپائی کاتجزیہ کرتے ہیںجوکسی مخصوص ذات یاخاندان پرمرکوزہیںتواس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ کسی مخصوص ذات برادری کی جماعت ہونے کے لیبل نے اس باربیشترسیاسی جماعتوںکوزبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔اس سلسلے میںآپ آرجے ڈی کی قابل رحم حالت کامشاہدہ کرسکتے ہیں۔وہاںکی زیادہ ترسیٹوںپرگوالوںنے ذات برادری پرمذہبی شدت پسندی کوترجیح دی ،اترپردیش میںملائم سنگھ یادواوربی ایس پی سپریمومایاوتی کاانجام کتنا عبر تنا ک ہواہے اس کوبتانے کی ضرورت نہیںہے،یہاںمایاوتی کی برادری نے بھی ان کی ایک نہ سنی اوربھیڑکے ریوڑکی طرح بی جے پی کی جھولی میں کو د گئی ۔ جبکہ مسلمان انتخابات کے مبہم منظرنامہ میںپس وپیش کاشکاررہا،اس کی صحیح رہنمائی کسی نے بھی نہیںکی ،سب نے اس کاسیاسی استعمال کرنے کامنصوبہ بنایااوراس طرح ملک کی دوسری بڑی اکثریت 129 پارلیمانی سیٹوںپرفیصلہ کن پوزیشن میںہونے کے باوجود اپنی اہمیت منوانے میںناکام رہی اورتاش کے پتوںکی طرح بکھرکرفسطائی طا قتوںکی راہ آسان کردی۔عام انتخابات کے نتائج چیخ چیخ کر بتا ر ہے ہیںکہ بنیادپرست ہندو تو ا جماعت کی تاریخ ساز کامیابی میںان کے لیڈروںکی شب وروزکی محنت سے زیادہ نام نہادسیکولرجماعتوںکے پروپیگنڈے،آپسی سرپھٹول اورمنظم حدبندی کی سازش پرکام کرنے والے سیاسی رہنماؤںکارول سب سے زیادہ ہے۔بعض پارلیمانی حلقوںمیںگوالے ملائم سنگھ یادواور لالو پرشادیادوکے جھنڈے دونوںہاتھوںسے پکڑکر فضامیںلہراتے رہے،جبکہ ان کے دل ودماغ میںبی جے پی کی محبت کی باڑھ آتی رہی۔مسلمانوںنے گوالوں کی منصوبند ی کوسمجھنے میںغلطی کی اوردھوکہ کھاگئے۔اگراس منظرنامہ کی روشنی میںیہ بات کہی جائے توقطعی غیرمناسب نہیںہوگی کہ دانستہ یانادانستہ طورپرنام نہادسیکولرسٹ لیڈران نے آرایس ایس کیلئے جیت کی راہ آسان کی ہے ،اس سلسلے میںہم کسی سیکولرسیاسی لیڈرکوآرایس ایس کاایجنٹ تونہیںکہہ سکتے مگریہ کہنے میںکوئی جھجھک نہیںہونی چاہئے کہ سیکولرپارٹیوںکے سربراہان کی انانیت خودپسندی اورحدسے بڑھی ہوئی خوداعتمادی نے انہیںایک مشترکہ پلیٹ فارم پرآنے نہیںدیا۔یہاںیہ بات بھی قابل ذکرہے کہ مسٹراروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے ہندوتوامنصوبہ کوکامیاب کرانے میںکلیدی رول ادا کیا ہے ۔یوںتوسیاسی تجزیہ نگاروںبالخصوص مسلم صحافیوںنے اناہزارے تحریک کے وقتہی اپنی تشویش ظاہرکردی تھی۔آپ ثبوت کے طورپراس زمانے کے اردواخباروںکے اوراق پلٹیے آپ کو اس قسم کے اداریے اوربے شمارمضامین پڑھنے کو ملیںگے جس میںکہاگیاتھاکہ اناکی حیثیت ایک ڈمروکی ہے اوریہ ڈمروآرایس ایس کے ہاتھ میںہے۔وہ جب چاہتاہے اپنے مفادات کیلئے اس ڈمرو کو بجا دیتا ہے۔گزشتہ دنوںایک انگریز ی اخبار نے آرایس ایس کے ایک ترجمان کاانٹرویوشائع کیاتھاجس میںیہ سوال بھی پوچھاگیاتھاکہ سیکولرووٹوںکو بے سمت کردینے کیلئے کہیںاسی نے تواروندکیجریوال کو کھڑا نہیں کیا ہے ؟ اس سوال کامبہم اوراجمالی جواب دیتے ہوئے کہاگیاتھاکہ آرایس ایس اس طرح کے ایکسپریمنٹ کر تا رہتا ہے۔بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کردیاکہ غیرجانبدارتجزیہ نگاروںکے اندیشوںمیں کتنی سچائی تھی اورآرایس ایس کے منصوبہ کوعملی جا مہ پہنانے کیلئے عام آدمی پارٹی نے کتنااہم کردار ادا کیا ہے۔دراصل کیجریوال کی ٹیم میںجولوگ پہلی صف میںکھڑے تھے،جب انہوںنے پارٹی سے بغا و ت کی توان کاآخری ٹھکانہ بی جے پی ہی تھا۔یہاںیہ سوال پیداہونالازمی ہے کہ عام آدمی پارٹی کے باغی لیڈروںنے ملک کی دوسری سیکولرپارٹیوںسے ہاتھ کیوں نہیں ملا ئے ۔ونودکمار بنی کابی جے پی پریم اب کسی سے ڈھکاچھپانہیںرہ گیاہے۔اس کے علاوہ پارٹی کے ان تمام لوگوںکواس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے جنہوںنے پارلیمانی امیدواربنائے جانے کے باوجودپارٹی سے بغاوت کرکے بی جے پی میں شمو لیت اختیارکرلی تھی۔
یہاںہم انگریزی اخبار’’فرسٹ پوسٹ‘‘ کی اس رپورٹ کوآپ کے سامنے رکھناچاہتے ہیں’جس میںکہاگیاہے کہ آج بی جے پی نے جوغیریقینی کامیابی حاصل کی ہے وہ صرف31فیصدووٹوںکی بدولت ہے،جبکہ ملک بھرکے69فیصدووٹربڑی اکثریت کے باوجودٹکڑوںمیںبٹ جانے کی وجہ سے مات کھاگئے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ حالیہ عام انتخابات میںکانگریس پارٹی کو19.5فیصدووٹ حاصل ہوئے تھے۔اس میںبھی تقریبا49فیصدووٹ مسلمانوںکے ہیں۔لہذاکانگریس یہ نہیںکہ سکتی کہ اس کی ہارکیلئے مسلم رائے دہندگان ذمہ دارہیں،بلکہ اس کی اس شرمناک حالت کیلئے فارو رڈ بلاک کی وہ لابی زیادہ ذمہ دارہے جس کی مٹھی میںکانگریس پارٹی قیدہے۔یہاںاپنااحتساب کرتے ہوئے کانگریس ہائی کمان کوان لوگوںکے گریبان میںجھانکناچاہئے جوظاہری طورپرپارٹی کے سینئر کیڈر ہیں مگراپنی برادریوں میںبھی اتنی گرفت نہیںرکھتے کہ انہیںبی جے پی کے حق میں پولرا ئز ہو نے سے روک سکیں۔رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندو فارورڈ بلاک کے لگ بھگ 60فیصدسے زیادہ ووٹ بی جے پی کے کھاتے میںگئے ہیں۔اس کے برخلاف مسلمانوںکے تعلق سے کانگریس کے تمام وعد ے مینی فیسٹوتک ہی محدودرہے اگرکچھ ملابھی توان مٹھی بھرنام نہاداقلیتوںکوجنہیںخاندانی کانگریسی کہا جا تا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کانگریس پارٹی میں عوام کے ذریعہ مستردکئے جاچکے ان سینئر لیڈروں کے علاوہ دو سرو ں کوموقع کیوںنہیںدیاجاتاجواپنی کارکردگی کی وجہ سے عوام پرمضبوط گرفت رکھتے ہیں ۔ اس پہلو پر سو چنے والاہرفرداس شک میںمبتلاہوجاتاہے کہ کانگریس پارٹی مخصوص مسلم خاندا نو ں کے خول سے باہرنکلناکیوںنہیںچاہتی۔راہل گاندھی کی ٹیم میںمسلم نوجوانوںکانمایاںچہرہ نظرکیوں نہیں آتا،جس نوجوان طبقہ کولے کر انہوںنے ملک فتح کرنے کابیڑااٹھایاتھااس میںدرودورتک کسی مسلم نوجوان کانمایاںچہرہ موجودنہیںتھا،حالاںکہ راہل کی ٹیم کاانجام آج سب کے سامنے ہے ،ان کی ٹیم کاکوئی بھی امیدوارکامیاب نہیںہوسکا،ہمیںیقین ہے کہ اگرراہل گاندھی کی ٹیم میںمسلم نوجوانو ںکی قابل ذکرنمائندگی ہوتی توشایدپارٹی کااتنادردناک انجام نہیںہوتا۔اب سوال یہ ہے کہ چند بوڑ ھے مسلم کندھوںکے سہارے مسلمانوںکاسیاسی استعمال کرنے کی روش کب بندہوگی؟کب کانگریس ایسے لیڈران کے حصارسے باہرنکل کربراہ راست مسلمانوںسے مربوط ہوگی جنہیںملک کاعام مسلمان اپنادشمن سمجھتاہے۔ جن لیڈروںکے سہارے یہ پارٹی مسلم سماج میںاپنی مقبولیت بحال کرناچاہتی ہے ان لیڈروںکومسلم سماج نے 1992میںہی رد کردیاتھا۔آج کانگریس پارٹی میں مو جود مسلم لیڈران کی حیثیت جاننی ہوتوان سے صرف یہ مطالبہ کرلیاجائے کہ اپنے دم پروہ اپنے حلقہ سے مسلمانوںکے ایک لاکھ افرادکوایک جگہ جمع کرکے دکھائیں۔میںیہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتاہوںکہ یہ لوگ اپنے بلبوتے10ہزارمسلمانوںکوبھی جمع کرنے کی صلاحیت نہیںرکھتے۔ یہ حالات کانگریس کونئے طریقے سے سوچنے اورپالیسی بنانے کامطالبہ کررہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک بڑی اورقومی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے کانگریس پارٹی کواپنے اندرزیادہ لچک پیداکرنی چاہئے۔ لہذ ا کا نگر یس پارٹی کو اب مسلمانوںکی حمایت حاصل کرنے کیلئے عملی طورپرسماج سے جڑ نا ہو گااوراگروہ چندنام نہادموجودہ مسلم لیڈروںکے بھروسے ہی آگے اقتدارکاخواب دیکھ رہی ہے تویقین کیجئے اس کاانجام اس سے بھی زیادہ سنگین ہوگا۔آج اگرملک میںسیکولرطاقتیںمفلوج ہورہی ہیںتو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ سیکولرزم کے استحکام کیلئے ایک دوسرے کاہاتھ تھامنے کوکسی قیمت پر تیار نہیں ہیں،جبکہ فرقہ پرست طاقتیںسارے اختلافات کوبھول کرمتحدہورہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 31 فیصدووٹ پانے والی جماعت ملک کی طاقت ورپارٹی بن کرابھری اور69فیصدووٹ رکھنے والی پارٹیاںآدھے راستے میںہی ہانپنے لگیں۔

فیض احمدفیض(مضمون نگاروشوشانتی پریشدکے چیئرمین ہیں)

Last modified on جمعه, 09 خرداد 1393 10:49
Login to post comments