بھلائی اور معاشرتی تعمیر سب کچھ کمرشلائز کر دیا گیا ہے۔فلاحی کام کسی ادارہ یا تنظیم کے تحت کرنا فلاح کو زیادہ منظم بنا دیتا ہے لیکن آجکل دوسرے میدانوں کی طرح یہاں بھی نمود ونمائش کے بعد متعددقابل تشویش رجحانات فروغ پارہے ہیں۔ ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے جس سے ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی پذیر اور غریب ممالک پرقابو پانے کا ایک نیا طریقہ وضع کرلیا ہے۔گذشتہ روز ہندوستان میںمفاد عامہ کے عنوان پر قائم این جی اوزیعنی غیر سرکاری تنظمیوں کا انتہائی مکروہ اور قابل مذمت چہرہ سامنے آیا ہے۔ایک طرف اسٹاف فنڈنگ ہیٹStop Funding Hateمہم کے تحت ثقافتی اقدار کا نقاب اوڑھے این جی او آر ایس ایس کی منافرت پر مبنی ہندوتواسیاست کے پس پشت غیر ملکی فنڈنگ سے پردہ اٹھا ہے تو دوسری جانب انٹیلی جنس بیورو کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی مالی امداد یافتہ غیر سرکاری تنظیمیں ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے خطرہ ہیں۔آر ایس ایس کے قابل نفریں کارناموں سے تو اخبارات پہلے ہی بھرے پڑے ہیں جبکہ رواںہفتہ کے دوران حکومت کوپیش کردہ ہندوستان کے خفیہ ادارہ انٹیلی جنس بیورو کی خفیہ رپورٹ نے دماغ کی چولیں ہلادی ہیں۔21 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ہندوستان کے بعض اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے پاس بھی پہنچی جس سے یہ صاف واضح ہوتاہے کہ انٹیلی جنس والے اپنی اسی تجزیاتی رپورٹ کو مشتہر کرنا چاہتے ہیں۔انٹیلی جنس بیورو کی اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی مالی امداد یافتہ غیر سرکاری تنظیمیں ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے ایک خطرہ ہیں۔
گھر پھونک‘تماشہ دیکھ:
اس رپورٹ میں یہ الزام عائدکیا گیا ہے کہ یہ غیر سرکاری تنطیمیں ملک کی داخلی پیداوار کو ہر برس 2 سے 3 فی صد تک کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یعنی آج کی شرح سے یہ نقصان 2سے 3 لاکھ کروڑ روپے تک کا ہے۔یہ تجزیہ خفیہ ادارہ کے اقتصادی ماہرین نے کن بنیادوں پر کیا ہے، اس کی توضیح تو وہی کر سکیں گے لیکن غیر سرکاری تنظیموں کو ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے خطرہ بتا کر انٹیلی جنس بیورو نے ملک میں اظہار رائے کی آزادی، احتجاج کے حق اور جمہوری مذمت کے اصولوں کے بارے میں بنیادی سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔انٹیلی جنس بیورو نے اپنی رپورٹ میں ماحولیات کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنطیم گرین پیس، ایکشن ایڈ اور حقوق انسانی کی تنطیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی سرکردہ غیر سرکاری تنطیموں کا نام لیا ہے جو ہندوستان میں ایک عرصہ سے سرگرم ہیں۔ بیورو نے ان تنطیموں کے فنڈ کی تفصیلات بھی دی ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ رپورٹ مودی حکومت کے ایما پر نہیں بلکہ سابقہ منموہن سنگھ حکومت کی ہدایت پر تیار کی گئی ہے۔غور طلب ہے کہ تقریباً ڈھائی برس قبل تمل ناڈو کے کونڈئی کولم جوہری پلانٹ کیخلاف اچانک زبردست تحریک شروع ہو ئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس ری ایکٹر کی تعمیر اور اس کیلئے زمین کے حصول وغیرہ کے عمل میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی لیکن جس وقت ملک کا یہ سب سے بڑا ری ایکٹر تیار ہو کر بجلی کی رسد شروع کرنے کی حالت تک پہنچا، اس وقت وہاں مخالفت کی تحریک شروع ہو گئی۔
ترقیاتی منصوبوں میں بنی رکاوٹ:
ملک کے دیگرعلاقوں میں بھی جوہری ری ایکٹروں کی تعمیر کیخلاف احتجاج ہونے لگا۔اس وقت حکومت کو شک ہوا تھا کہ یہ اجتجاج خود ساختہ نہیں بلکہ کسی کی ایما پر منطم کئے گئے ہیں۔اس سے قبل بنگال میں کار بنانے والی سب سے بڑی ملکی کمپنی ٹاٹا کو اپنی تعمیر شدہ فیکٹری اکھاڑ کر گجرات لے جانی پڑی کیونکہ فیکٹری بننے کے بعد مقامی لوگوں نے اپنی زمینیں واپس مانگنی شروع کر دی تھیں۔اسی طرح کوریا کی سب سے بڑی اسٹیل کمپنی پاسکو ہندوستانی ریاست اڑیسہ میں تقریباً 7 ارب ڈالر کی مالیت کا ایک کارخانہ گذشتہ 7 برس سے تعمیر نہیں کر سکی کیونکہ ان تنطیموں کے زیر اہتمام مقامی قبائلی اپنی زمینیں دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ماحولیات اور مقامی مذمت کا خوف اتنا زیادہ پھیل چکا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں حکومتیں اور نجی کمپنیاں معدنیات اور کوئلہ کی کانکنی کی ہمت نہیں کر پا رہی ہیں۔ان تنظیموں نے ماحولیات اور زمین کے حقوق کے نام پر ایسا خوف پیدا کیا ہے کہ حکومتیں سڑک کی توسیع کے فیصلہ سے بھی ڈرتی ہیں کیونکہ اس کیلئے درخت کاٹنے پڑیں گے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں غیر سرکاری تنطیموں نے ترقیاتی منصوبوں میں شدید رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ان تنطیموں نے بہت سے پروجیکٹوں اور منصوبوں کیخلاف رائے عامہ تیار کر کے انھیں ناکام بنایا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تنظیمیں عموماً ان لوگوں کیلئے آواز اٹھاتی ہیں جو بے زبان ہیں اور جو ترقی کے خاکے میں حاشیہ پر ہیں۔
جمہوریت اور ترقی کی آڑ میں:
کسی بھی رفاعی و فلاحی ریاست میں این جی اوز کی اہمیت اور کردار کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے انکار ممکن ہے۔کوئی بھی اخباریا نیوز چینل کھول کر دیکھ لیجئے ‘ صاف پتہ چلے گا کہ جمہوری معاشرہ میںان کی آہٹ صاف سنائی دے گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جو این جی اوزیعنی غیر سرکاری تنظمیں انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہیںاور ان کی کارکردگی بے مثل اور قابل تقلید ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا سماجی و معاشرتی مسائل؛ یہ این جی اوز حکومت کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں؛ انفرادی طور پر بھی جو فریضہ انجام دیتی ہیں وہ بھی قابل مثال ہے۔ برصغیرہند‘پاک میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں این جی اوز کام کر رہی ہیں جن کے دفاتر ہر بڑے شہر اور تحصیل سطح پر موجود ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سے وابستہ افراد کیا واقعی خدمت خلق کے جذبہ کے تحت کام کر رہے ہیں، یا پس پردہ ان کا کوئی اور ایجنڈا ہوتا ہے؟لیکن تشویش کا مقام یہ ہے کہ انٹیلی جنس بیورو نے جو رپورٹ ان تنطیموں کے بارے میں تیار کی ہے وہ کسی بھی طرح ایک جمہوری نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔
مفاد پرستی کا کھیل:
بظاہریہ تنظیمیں کسی کا مفاد نہیں پورا کرتیںیعنی وہ کسی کے اشارے پر کام نہیں کرتیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے تمام پروگرام اعلان شدہ ہوتے ہیں ان کی کی فنڈنگ وزارت داخلہ سے منطور شدہ ہوتی ہے۔ وہ ملک کے جمہوری قوانین کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ہندوستان میں ابھی تک حکومتیں زمین کے حصول سے لے کر ماحولیات کے تحفظ تک، ہر پالیسی میں ابہام کا شکار رہی ہیں اور اکثر ترقیاتی منصوبوں کی نوعیت اور مقام کا تعین سیاسی بنیادوں پر ہوتا رہا ہے۔ترقیاتی کاموں کیلئے قوانین اور ان کے نفاذ میں جس شفافیت کی ضرورت ہے وہ آنا ابھی باقی ہے۔کسی بھی این جی او کو سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ رجسٹرڈ کرتا ہے جس کیلئے فلاحی یا رفاعی ادارے کو اپنا منشور، آئین اور عہدیداران کے نام اور ان کے کوائف دینے پڑتے ہیں۔ این جی او کی رجسٹریشن کا طریقہ کار بڑا سہل ہے۔ ا گرچہ ہر سال محکمہ مذکورہ سے اس کی تجدید کروانا پڑتی ہے لیکن متعلقہ ڈپارٹمنٹ میں این جی اوز کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں جس کے باعث بدنیتی کی بنیاد پر ذاتی مفادات کے حصول کیلئے قائم ہونے والی این جی اوز مفادات تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن ویلفیئر کیلئے کچھ نہیں کر پاتیں جس سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور وہ ایسی این جی اوز کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو نیک نیتی سے کام کر رہی ہوتی ہیں۔
ہوش کے ناخن :
لوگوں کی خدمت ایک اچھا جذبہ ہے لیکن اگر اس میں دھوکہ، فراڈ اور مفاد شامل ہو جائے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ حکومت اس کا نوٹس لے اور ایسی این جی اوز کو کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہئے جو صرف میڈیا اور کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام مفاد پرست اور ملک دشمن این جی اوز کے خاتمہ کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کرے جو نہ صرف رجسٹرڈ اور ان جسٹرڈ این جی اوز کی کارکردگی کا جائزہ لے بلکہ سکروٹنی کے بعد صرف ایسی این جی اوز کو ہی کام کرنے کی اجازت ہو جو حقیقی معنوں میں اپنے منشور اور آئین کے مطابق کام کر رہی ہوں۔ فنڈز کے استعمال کی جانچ پڑتال کیلئے بھی معقول احتساب کانظام ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میںہوش کے ناخن لے۔ ایسی این جی اوز کی بدولت ملک کی ساکھ دنیا میں متاثر ہو رہی ہے جس کا سدباب بہت ضروری ہے جو بھی این جی او مالی بے ضابطگی میں ملوث پائی جائے اس کے ذمہ داران کیخلاف فوجداری کیس بنائے جائیں تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پا سکیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کو جبکہ مرکز میں برسراقتدارپارٹی بی جے پی بھی آر ایس ایس کی مرہون منت ہے!
ایس اے ساگر