×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

کون لائے گا اچھے دن؟

تیر 10, 1393 1382

منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں؟لیڈر ی کا آغاز ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہوا ہو اور پارٹی چاہے کوئی بھی ہو۔ اپنے

جماعت کے نامزد امیدواروں کی انتخابی مہمات میں کام کرنے کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کیجئے۔ اپنی کارکردگی کے متعلق زیادہ بلند بانگ دعوے مت کیجئے لیکن سب کی توقع سے بڑھ کر کام کر کے دکھایئے۔ بعض علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں جماعت کی مقامی کمیٹیاں قریب المرگ ہوتی ہیں یا بالکل ہی سرد پڑ چکی ہوتی ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر جماعت کے مختلف عہدیداروں کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے وہ سست ہوں یا ممکن ہے یکسر نااہل ہوں۔ وہ ایسے باصلاحیت لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مسلسل محنت کر کر کے تھک چکے ہیں اور اب ان میں مزید بوجھ اٹھانے کی تاب نہیں رہی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض اپنا ٹہکا جمائے رکھنے کیلئے عہدیداری کی کرسی پر متمکن رہنے کے خواہشمند ہوں، او ریہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کے اصولوں سے کھلا اور مبنی بر بغض اختلاف رکھتے ہوں۔ وجہ کچھ بھی ہو، اگر پارٹی لیڈران کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تو آپ کو ان کی اصلاح کرنے، ان کی جگہ دوسرے افراد لانے یا خود ان کی جگہ لینے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ جماعت کی چند اضافی گروہی سرگرمیوں میں حصہ لیجئے مثلاً یوتھ گروپ، خواتین گروپ وغیرہ۔ اگر آپ کے علاقے میں ایسی کوئی سرگرمی موجود نہیں تو اس کے آغاز کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیجئے۔ اگر آپ اپنی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے اور قواعد و ضوابط سے پوری طرح واقف نہیں، تو پارٹی کے ضوابط کی نقل حاصل کیجئے، ان کا مطالعہ کیجئے اور ان کی پابندی کیجئے۔ اس کے بعد پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کیجئے۔ وہاں آپ کو پارٹی کے موجودہ لیڈروں اور سرگرم کارکنوں سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آئے گا، اور وہ بھی آپ سے واقف ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی جماعت کی مقامی کمیٹی میں کوئی جگہ خالی ہو اور آپ کو اس کیلئے پیشکش کی جائے تو قبول کرنے میں ردوقدح نہ کیجئے۔ ایسے اجلاسوں کے دوران اپنی آنکھیں اور کان کھلے، اور منہ بند رکھئے اور جب تک تمام طریق ہائے کار سے مکمل واقفیت حاصل نہ ہو جائے، غیرضروری جوش اور سرگرمی کا مظاہرہ مت کیجئے۔ عموماً یہ اجلاس بہت زیادہ دلچسپی کے حامل نہیں ہوتے۔ بوریت سے بچنے کیلئے اپنے ساتھ پڑھنے یا لکھنے کا کوئی کام لے جایئے اور اجلاس کے غیردلچسپ حصوں کے دوران خود کو اس میں مصروف رکھئے۔ زیادہ تر علاقوں میں جماعتی عہدیداروں میں خاصی تیزی سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے میں اپنے لئے کوئی عہدہ حاصل کرنے کیلئے جوڑ توڑ مت کیجئے۔ اگر آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو غالب امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی خود ہی آپ سے کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کر دے گا۔ ایسے ذمہ داریوں کو قبول کر لیجئے اور انہیں اچھے طریقے سے نبھایئے۔ جلد ہی آپ کو جماعت کے مقامی دفتر میں کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ دیا جائے گا لیکن یاد رکھئے کہ جماعت میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کیلئے آپ کا دفتری عہدیدار ہونا ضروری نہیں۔ اپنی جماعت کے اچھے امیدواروں کے فنڈ میں چندہ دیجئے۔ مالی معاونت آپ کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ جماعت کی چندہ جمع کرنے کی مہمات میں حصہ لیجئے۔ اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کو مالی معاونت فراہم کیجئے۔ جماعتی سرگرمیوں کے دوران کسی بھی اچھے کارکن سے ملاقات ہو تو اس کیساتھ مضبوط عملی تعلقات استوار کیجئے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی پیروی کرنے والے، خواہ تھوڑے بہت ہی سہی، موجود ہوں، یعنی ایک ایسا فرد جو دوسروں پر رسوخ رکھتا ہو۔ اپنے علاقہ کے ایسے افراد کی فہرست کا جائزہ لیجئے جنہیں آپ جانتے ہیں، جو آپ کی جماعت میں سرگرم حیثیت میں شامل ہیں یا ایسے جنہیں شامل ہونا چاہئے۔ اپنے علاقہ کے چیدہ چیدہ افراد کو کسی روز رازداری سے اپنے گھر جمع کیجئے اور ان کیساتھ اپنے علاقہ کی سیاست کے مستقبل، مسائل اور دیگر سماجی سرگرمیوں پر گفتگو کیجئے۔ بعدمیں دیگر شرکا ایسے اجلاسوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اجلاس کے دوران ہلکی پھلکی تواضع کا اہتمام رکھئے۔ ایسے ہر اجلاس میں دیگر بااثر افراد سے اس ضمن میں مشورے طلب کیجئے کہ اور کس کس کو اس اجلاس میں مدعو کیا جانا چاہئے۔ یہ البتہ ذہن نشین رکھئے کہ ایسے اجلاسوں میں شامل ہونے والے تمام افراد قابل اعتماد اور بااصول ہوں اور سیاسی و مالی وسائل کے مالک ہوں۔ موجودہ شرکاکے اتفاقِ رائے سے نئے شرکاکو مدعو کیجئے۔ ایسے معزز اور بارسوخ افراد پر اپنی توجہ مرکوز رکھئے جن میں معاملات کو حرکت میں لانے اور ان پر اثرانداز ہونے کی اہلیت موجود ہو۔ ایسے اجلاسوں میں اپنی جان پہچان کے دیگر لیڈروں کو بھی مدعو کیجئے۔ ذاتی مرکزی مفادات سے قطع نظر، آپ کے اجلاس میں شامل ہونے والے ہر فرد کو متفق علیہ نکات پر باہم مل کر کام کرنے کیلئے آمادہ اور رضامند ہونا چاہئے۔ ہر دو یا چار سال کے بعد جماعتی کمیٹیوں کو اپنی تجدید کرنی چاہئے۔ عوامی امیدواروں کے انتخاب پر جماعتی کمیٹیاں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہیں لیکن بعض اوقات اس ضمن میں وہ فیصلہ کن قوت کی حامل ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں نامزد امیدواروں کے انتخاب میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ مقامی اور قومی انتخابات کی آمد سے قبل اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کی سرگرمیوں کے شیڈول کے ذریعے ان کے کردار کے متعلق معلومات حاصل کیجئے۔ براہِ راست پ ±راثر خط و کتابت اور رابطے کے اصولوں سے واقفیت حاصل کیجئے اور مقامی کارکنوں اور عطیات دینے والوں کے پتوں اور ٹیلی فون نمبرز کی فہرست تیار کیجئے۔ اپنے علاقے میں غیرجماعتی سرگرمیوں میں شامل لیڈروں کیساتھ مضبوط تعلقات استوار کیجئے۔ مثلاً شہری تنظیمیں۔ مسجد کمیٹیاں۔ کام کرنے کے حقوق کے حامی گروپ۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی ایسوسی ایشنز۔ ریٹائرڈ ملازمین کے گروپ۔ ثقافتی اور نسلی گروپ۔ روایتی اقدار کی پاسداری کی جدوجہد کرنے والے گروپ۔ قومی سطح کے گروہوں کیساتھ رابطے قائم کیجئے تاکہ اپنے علاقے میں ان کے کارکنوں کو تلاش کرنے اور اپنی جماعت میں شامل کرنے میں آمادہ کرنے پر کام کیا جا سکے۔ ان سب کو اپنی اپنی اہلیت کے مطابق مختلف مواقع پر جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے تیار رکھئے۔ سب سے آخر میں، ایک اجلاس بلایئے جس میں سب جماعت کے فیصلوں کی پرجوش تائید و حمایت کرنے کا عہد کریں۔ جماعت کی قیادت کو مختلف مشورے اور تجاویز ارسال کی جا سکتی ہیں۔  ایسے اجلاس کے اختتام پر، ہر ایک کو یاد دلایئے کہ اس نے اپنے اتحاد کے امیدواروں کی کامیابی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا ہے۔ فون اور خط و کتابت کے ذریعے حمایت کنندگان عرف سپورٹروں کی ایک ممتاز فہرست تیار کیجئے۔ یہ وہ افراد ہوں گے جنہوں نے آپ کے منعقد کردہ اجلاسوں میں حصہ لیا ہے، اس کے علاوہ جماعت کے دیگر کارکن، عطیات دہندگان، عوامی نمائندے اور علاقائی سرگرمیوں کے حوالے سے ممتاز لیڈر۔ ایسے افراد سے مختلف جماعتی معاملات پر رابطہ قائم کیا جائے تو اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مقامی یا عام انتخابات اور جماعتی کنونشنز کے عمومی شرکاء سے خط و کتابت کیجئے اور ان سے حمایت کیلئے درخواست کیجئے۔ لوگ ایسی درخواستوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اپنے خط میں ووٹ دینے کے وقت اور مقام کی نشاندہی وضاحت سے کیجئے۔ خط کیساتھ ایک جوابی لفافہ اور جوابی فارم یا کارڈ بھی شامل کیجئے جس کے ذریعے لوگ اپنی سیاسی وابستگی کی یقین دہانی کرا سکیں اور مالی عطیات کے ذریعے بھی حصہ ڈال سکیں۔ آپ کی پارٹی کے چند ارکان کے پاس ایسی فہرستیں موجود ہونی چاہئیں۔ لیڈروں کو اپنی فہرست میں موجود افراد کو ذاتی طو رپر خصوصی خط روانہ کرنے چاہئیں جن میں انہیں جماعتی کنونشنز، سیاسی اجلاس، عوامی میٹنگز اور مظاہروں میں شرکت کرنے کی دعوت دی جائے۔ ان خطوط میں اپنی تمام سرگرمیوں کیلئے حمایت کی درخواست کیجئے۔ اپنی درخواست کو دہرانے سے ہچکچایئے مت۔ لوگوں سے مختلف انداز میں ایک سے زائد بار درخواست کی جائے تو وہ زیادہ بہتر ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یاد رکھنے کیلئے چند باتیں انتخابات انفرادی لیڈروں یا سیاسی جماعتوں کیلئے ان کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کا نکتہ عروج ہوتے ہیں۔ جمہوری دنیا کا سب سے اہم عامل انتخابات ہی ہیں۔ یہ آپ کے خیالات، نظریات، افعال، جان توڑ محنت اور خصوصاً عام آدمی یا ووٹر کیساتھ آپ نے اپنی زندگی میں جو تعلق قائم کیا ہے، اس کی واپسی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی فرد دوسروں کا دل جیتنے میں کس قدر پراعتماد ہے۔ تاریخ عالم میں ایسی جمہوریت سب سے پہلے قدیم یونان میں متعارف کرائی گئی جس میں ملک کے شہری براہِ راست شریک ہوتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی یونانی ریاستوں میں اس نظام کا اطلاق اور اہتمام کرنا خاصہ آسان تھا۔ لیکن آج کے بڑے بڑے ملکوں میں شہریوں کی اکثریت براہِ راست شرکت کے بجائے اپنے نمائندے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے۔ انتخابات جمہوری نظام کا اہم ترین جزو ہیں۔ انتخابات کی ابتداکب اور کیسے ہوئی، اس کے متعلق تاریخ خاموش ہے لیکن قدیم دنیا میں بھی یہ تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ ابتدامیں ووٹ دینے یا رائے کا اظہار کرنے کا نظام خفیہ نہ رکھا جاتا تھا یعنی رائے شماری کھلے عام منعقد کی جاتی تھی۔ جان سٹوارٹ مل اور چند دوسرے یوروپی فلاسفر بھی اسی نظام کی حمایت کرتے رہے۔ ڈنمارک میں یہ نظام 1910تک عملی صورت میں قائم رہا اور امریکہ اور برطانیہ میں 1870 تک۔ اس کے بعد ان تمام ملکوں میں ’خفیہ رائے شماری‘ کا طریقہ اپنا لیا جو کہ اب پوری دنیا میں جمہوری انتخابات اور غیرجمہوری موضوعات کے علاوہ دیگر کسی بھی طرح کی رائے شماری کے نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ انتخابات کا باقاعدگی اور تسلسل سے انعقاد عوام کے سیاسی شعور کی پختگی اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قانونی نکتہ نظر سے، جیورس پروڈنس Jurisprudence قانون کی سائنس ہے اور سیاست خصوصاً جمہوری سیاست میں، انتخابات سے مراد تمام سیاسی جدوجہد، محنت، ذاتی نظریات کی مقبولیت اور پسندیدگی کا ماحصل ہے اور اس امر کی علامت ہے کہ ایک عام آدمی کی نگاہ میں آپ کس حد تک قابل اعتماد ہیں۔ لیکن ان سب باتوں میں کامیابی حاصل کر لینے کا مطلب کامیابی نہیں ہوتا۔ انتخابات سے قبل مہم چلانے، منشور بانٹنے اور لوگوں کو تحریک دینے کا وقت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے دن کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر انتخابی مہم اور مقررہ دن کیلئے پوری طرح تیاری نہ کی جائے تو غلطیاں اس تمام محنت کو لاحاصل بنا سکتی ہیں جو آپ نے کئی سال میں لوگوں کو حرکت میں لانے اور اپنی پہچان بنانے کیلئے کی ہے۔ بہت سے ایسے مقامی لیڈروں کی مثال دیکھنے میں آتی ہے جو دوسروں کو اپنے مو قف پر قائل کرنے کی عمدہ صلاحیتوں کے مالک نہ تھے لیکن انتخابی مہم چلانے کے ہنر سے پوری طرح واقف تھے، جانتے تھے کہ کس وقت کس حربے کا استعمال مناسب رہے گا اور کون سی ترکیب صرف انتخابات کے دن ہی قابل استعمال اور نفع بخش ہوگی۔ ایسے لیڈروں کی کامیابی کا تناسب دوسروں سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔۔لیڈرشپ خصوصاً سیاسی لیڈرشپ میں اپنے آپ کو منوانے کیلئے آپ کو دوسروں کے مقابلہ انتخابات میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے دو ہی صورتوں میں نکلے گا۔ آپ کی فتح یا آپ کی شکست۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جیتنے کی صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ جیتنے کے بعد آپ ضرور پہلے سے زیادہ عقلمند ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ تقریباً ہر کوئی آپ کو بتاتا ہوا ملے گا کہ آپ کتنے عقلمند اور ذہین ہیں۔ ویسے بتائیں گے سبھی اور ایسے انداز میں کہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ حتیٰ کہ آپ کے پرانے دوست بھی آپ کے لطیفوں پر زیادہ زور سے قہقہے لگائیں گے… لیکن آپ کو عقلمند کہہ دینے سے آپ عقلمند بن نہیں جائیں گے۔ آپ کی عقلمندی کی وجہ یہ ہوگی کہ اب آپ امیدوار نہیں رہے۔ ہر امیدوار، امیدوار بنتے ہی اپنے آئی کیو میں سے تقریباً 30 پوائنٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیتنے کے بعد زیادہ تر افراد ان میں سے چند پوائنٹ واپس حاصل کر لیتے ہیں۔ اور ہارنے والے، جیتنے والوں سے کہیں زیادہ تیزی سے اپنی کھوئی ہوئی عقل بحال کر لیتے ہیں۔ جیتنے والے کی حیثیت سے اب آپ کو نئے مسائل اور نئے مواقع کا سامنا ہے، اور ایک پرانے دوست اور قریبی اتحادی کی حیثیت سے، اب جبکہ امکانات کے سارے در کھلے ہیں، مجھے امید ہے کہ میری نصیحت آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ اس وقت آپ جو فیصلے کریں گے ان میں سب سے اہم فیصلے اپنے سٹاف کے متعلق ہوں گے۔ آپ کا سٹاف آپ کی پالیسی ہے۔ اگر آپ ایک ایسا سٹاف منتخب کرتے ہیں جو آپ کی پالیسی کی ترجیحات میں آپ کا ہم خیال ہے تو آپ اپنے ایجنڈا کے زیادہ تر نکات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو آپ ایسے بہت سے اہم کام کرنے سے محروم رہ جائیں گے جنہیں مکمل کرنے کی توقع اس وقت آپ لگائے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو آپ منتخب کریں گے انہیں اپنے طور پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ان کی جگہ تمام فیصلے آپ کر سکتے تو انہیں کبھی منتخب نہ کرتے۔ ایک پرانی کہاوت ہے ’اگر بھونکنا بھی خود ہی ہے تو کتا پالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘ بااصول نااہلی ایک خطرناک چیز ہے اور یقینا آپ کیلئے کسی صورت مفید نہیں۔ لیکن بے اصول اہلیت ہلاکت خیز ہے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیجئے جن کی آپ سے وفاداری کی بنیاد آپ کے اصولوں پر ہو، آپ کی منفعت انگیزی پر نہیں۔ اگر آپ اپنے انتخاب کی بنیاد غلط سوچ پر رکھیں گے تو آپ کا اسٹاف یقینا آپ کو غلط سمت میں گھسیٹ لے جائے گا۔ آپ اپنی سیاسی بنیاد تباہ کر بیٹھیں گے اور اپنے مقرر کردہ اہداف میں سے زیادہ تر کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔ آپ کے منتخب کردہ تمام لوگ عین آپ جیسے عقائد کے حامل نہیں ہو سکتے۔ دو افراد کے درمیان حقیقی اتفاقِ رائے کبھی ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اختلاف نکل ہی آتا ہے۔ دائیں بازو سے بھی اتنے ہی لوگوں کو منتخب کریں جتنے لوگوں کو آپ بائیں بازو سے منتخب کرتے ہیں۔
کسے کہتے ہیں گورننگ ؟
 مختلف ذرائع سے چلائی جانے والی مہم کا نام گورننگ ہے۔ آپ کو ہمیشہ ایک محفوظ بنیادی حلقہ تیار کرنا چاہئے۔ جن لوگوں کو آپ امورِ حکومت کی انجام دہی کی منتخب کرتے ہیں انہیں ان عوام کا نمائندہ ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ منتخب کرنے والی جماعت اور عوام کیلئے اس سے زیادہ کوئی امر باعث اطمینان نہیں ہوتا کہ آپ کے اسٹاف میں ان کی خاطرخواہ نمائندگی موجود ہے۔ اگر مخصوص سیاسی قوتیں جنہوں نے انتخابات میں آپ کی حمایت کی تھی، اب آپ کے سر سے اپنا دست شفقت ہٹانے کا فیصلہ کر لیں تو وہ آپ پر دبا? ڈالنا شروع کر دیں گی۔ اور جب کبھی آپ کسی طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے جبکہ ہر منتخب فرد کو مسائل سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے تو وہ خودبخود آپ کی مدد کو نہیں دوڑیں گی بلکہ خود سے سوال کریں گی کہ’زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘ اپنے یقین کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ دوستوں کو دشمن بنا کر آپ دشمنوں کو دوست نہیں بنا سکتے۔ اس حقیقت کیساتھ زندہ رہنا سیکھئے کہ اگر آپ اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دیں گے تو بعض لوگوں کے نزدیک یقینا ناپسندیدہ ٹھہریں گے۔ آپ خواہ کچھ بھی کر لیں کوئی نہ کوئی آپ کا دشمن ضرور بنے گا۔ ایسے لوگ کبھی آپ کو اپنی نظرکرم کا سزاوار نہیں سمجھیں گے لہٰذا ان کی نظرکرم حاصل کرنے کی فکر بھی مت کیجئے۔ البتہ آپ ان میں سے زیادہ تر کو اپنا احترام کرنے پر ضرور مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوشش کریں گے تو ناخوشگوار باتوں کو خوشگوار انداز میں کہنے کے فن سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے وعدوں کو نبھانے سے آپ اپنے دوستوں کی دوستی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے زیادہ تر دشمنوں سے کم ازکم احترام ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کی جماعت کی زیادہ تر ارکان کے نزدیک آپ اتنی اہمیت کے حامل نہیں کہ وہ آپ کو مرکز کائنات سمجھنے لگیں۔ آپ کی حیثیت ایک مقصد کی سی ہے جس کیلئے انہوں نے لڑنا اور جدوجہد کرنا گوارا کیالیکن ان میں سے زیادہ تر اس سے پہلے بھی دیگر اچھے مقاصد کیلئے جدوجہد کر چکے ہیں اور آپ کے عرصہ اقتدار کے دوران اور اس کے بہت بعد میں بھی، مزید اچھے مقاصد کیلئے جدوجہد کرنے کی نیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک طویل کھیل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ممکن ہے کھیل میں اس وقت گیند آپ کے پاس ہو لیکن ان کی طویل مدتی دلچسپی کھیل میں فتح حاصل کرنے سے ہے، گیند قبضے میں رکھنے سے نہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے افعال سے ان پر ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی دلچسپی کا مرکز بھی کھیل میں فتح حاصل کرنا ہے، محض اخباروں میں تصویر چھپوانے والا چمکتا دمکتا ستارہ بننا نہیں۔ میڈیا نے آپ کو منتخب نہیں کیا، بھلے وہ اپنے تئیں ایسا ہی کیوں نہ سمجھتے ہیں۔ آپ کو آپ کے ووٹرز نے، خصوصاً آپ کے اتحاد نے، منتخب کیا ہے۔ آپ اپنے ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے میڈیا پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اپنے رائے دہندگان اور اپنے اتحادیوں کیساتھ کمیونیکیٹ کرنے کیلئے ایسے ذرائع اختیار کریں جنہیں میڈیا کے فلٹر لگانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اپنے بنیادی حلقے پر توجہ مرکوز رکھئے۔ اس کے ارکان کو خط لکھئے، ان سے ملاقاتیں کیجئے، انہیں احترام دیجئے، ان پر فخر کا اظہار کیجئے، ان کی سرگرمیوں کو سپورٹ کیجئے، ان کے اہم مواقع میں شرکت کیجئے، ان کی ترجیحات میں شریک ہونے والے دوسرے سیاستدانوں اور کارکنوں کی مدد کیجئے۔ لوگ سیاستدانوں سے خودغرض ہونے کی توقع رکھتے ہیں لہٰذا ایسے سیاستدان ان کی توجہ اور محبت کا خصوصی مرکز بنتے ہیں جن کے افعال ان کی بے غرضی کے مظہر ہوں۔ ہر ایسا نکتہ جو آپ کے سیاسی اتحاد کے نزدیک کسی اہم معاملے میں کلیدی ترجیح کی حیثیت رکھتا ہو، وہ آپ کی ترجیحات میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگا کہ چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کی علیحدگی کے اس نظام میں آپ ہر کام اپنے حسب خواہش انجام نہیں دے سکتے۔ لیکن آپ کو ہر وہ بات کہنی اور کرنی چاہئے جوثابت کرے کہ آپ اپنے سپورٹروں کی معقول توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مکمل فتح بڑی فرحت انگیز لیکن بڑی کمیاب ہے۔ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ چھوٹی چھوٹی فتوحات کی سیڑھیاں چڑھ کر بڑی فتح تک پہنچنے کیلئے تیار ہیں اور بعض اوقات آپ کو اچھے مقاصد کیلئے ہاری ہوئی جنگیں بھی لڑنا پڑیں گی۔ سیاست میں کامیابی سے پہلے یا بعد مثالی حالات کی توقع رکھنا اکثر خیال و خواب کی حد تک ہی رہتا ہے، حقیقت کے روپ میں اس کا ظہور بہت کم ہوتا ہے۔ بات اگرچہ کسی قدر انوکھی ہے لیکن سچ ہے کہ جب کوئی سیاستدان بااصول انداز میں کسی مقصد کیلئے جنگ لڑے اور ہار جائے، یا کسی مقصد کیخلاف جدوجہد کرے اور جیت جائے تو اسے نقصان کا سامنا بہت کم کرنا پڑتا ہے۔ وعدے کرنے میں محتاط رہئے لیکن جب وعدہ کر لیں تو پھر ہر حال میں اسے پورا کیجئے۔ آپ کے پاس دو اثاثے ہوتے ہیں، آپ کے وعدے اور آپ کی دوستیاں۔ دونوں میں سے کسی ایک کو نبھانے میں کوتاہی کریں تو اپنی سیاسی موت کا سبب بنیں گے۔
گرنے والوں سے سیکھیں سنبھلنا:
 سیکھنے کا ایک مسلسل عمل ہے سیاست ہے ‘لہذا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کیجئے۔ مختلف معاملات پر اپنے سینئروں کی ماہرانہ رائے حاصل کیجئے۔ اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان کاموں پر جو ایک ہارنے والے لیڈر کو کرنے چاہئیں۔ بعض امیدوار اس لئے ہارتے ہیں کہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے خاطرخواہ پیسہ نہیں ہوتا اور پوری کوشش کرنے کے باوجود وہ مناسب مالی وسائل کا انتظام نہیں کر پاتے۔ بعض اس لئے ہارتے ہیں کہ وہ کسی غلط انتخابی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں مثلاً ایسا حلقہ جہاں کی سیاسی روایات ان کی پارٹی کے حق میں نہ ہوں یا ایسا حلقہ جس کے رائے دہندگان ان کے نظریات سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ لیکن بہت سے ہارنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جیت سکتے تھے، ان غلطیوں میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کے مرتکب نہ ہوتے:
 1۔ اپنی انتخابی مہمات خود نہ چلانا اگر کوئی امیدوار اپنی انتخابی مہم کا انتظام و انصرام خود کرنے کی بجائے ’انتظام کاروں‘ کے سپرد کر دے، تو خواہ وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، انتخابی مہم کا انتظام اور متعلقہ ضروریات دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی اور توقع سے مختلف نتائج برآمد کرنے کا سبب بنیں گی۔ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم اپنے زیر نگرانی چلانی چاہئے اور ضروریات کے مطابق انتظامات کرنے چاہئیں۔ بعض نہایت مقبول لیڈروں کو انتخابات میں اسی لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے اور تمام انتخابی مہمات کا بیک وقت انتظام کرنے سے قاصر تھے۔ برطانیہ میں چرچل اور فرانس میں ڈیگال بے حد مقبول اور بااثر لیڈر تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر اپنے ملک کو ہٹلر نامی طوفان سے بچانے میں کامیابی حاصل کرنے پر اپنے اپنے ملک میں انہیں ہیرو کا مقام دیا جا رہا تھا۔ لیکن دونوں لیڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی مضبوط پوزیشن کو مضبوط تر بنانے میں کامیاب نہ رہ سکے۔ جو ساکھ انہوں نے بنائی تھی، اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اور انتخابات میں ہار گئے۔ 25 جولائی 1945کو چرچل روس کے سٹالن اور امریکہ کے ٹرومین کو جرمنی میں چھوڑ کر جنگ کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کیلئے لندن واپس پہنچے۔ انتخابی نتائج چرچل اور پوری دنیا کیلئے ایک غیرمتوقع دھچکا ثابت ہوئے۔ لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ چرچل کی کنزرویٹو پارٹی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور کلیمنٹ ایٹلی برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے۔
 2۔ پیسہ اکٹھا کرنے یا ووٹ مانگنے کیلئے خود باہر نکلنے کی بجائے زیادہ تر وقت ہیڈکوارٹر میں بند رہنا۔ کسی بھی امیدوار کیلئے حتی الوسع حد تک متحرک رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جو لوگ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے نقشوں، برادریوں کی پوزیشن اور فہرستوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور عوام سے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کیلئے کم وقت نکالتے ہیں، اپنی کامیابی کو اپنے ہاتھوں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
 3۔ انتخابی مہم کیلئے پیشگی جامع منصوبہ بنانے اور ایک ٹائم ٹیبل اور ایک حقیقت پسندانہ بجٹ تیار کرنے میں ناکامی۔ سیاست میں کام کے آغاز میں تاخیر ممکن ہے لیکن تقدیم نہیں یعنی کام تاخیر پذیر ہو سکتے ہیں لیکن کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وقت سے پہلے شروع کر دیا گیا ہے۔ ہارنے والوں کی انتخابی مہمات میں تقریباً ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب غلط ہوتی ہے اور وہ ایسے نکات پر بہت زیادہ زور صرف کر دیتے ہیں جو انتخابات کے نتائج پر بہت کم اثر ڈالتے ہیں۔ انتخابات نام ہیں ’گنتی‘ کا، اور آخری بیلنس شیٹ کیلئے اعداد کی جمع تفریق کی سائنس کا نام ریاضی ہے۔جب یہ جمع تفریق منظم انداز اور درست ترتیب کیساتھ کی جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح انتخابات بھی اپنی سیاسی تائید و حمایت کی گنتی کرنے کی سائنس ہیں۔ یہ گنتی منظم انداز اور درست ترتیب کیساتھ کی جانی چاہئے۔ کسی ہاری ہوئی انتخابی مہم میں کود پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اپنی انتخابی مہم کی معروضی صورتِ حال کا جائزہ لے کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھئے کہ اپنی ’گنتی‘بڑھانا کسی بھی انتخابی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ اچھا سالار کبھی ہاری ہوئی جنگ نہیں لڑتا۔ ونسٹن چرچل نے ایک موقع پر کہا تھاکہ’سیاست بھی کم و بیش جنگ کے جیسی ہیجان انگیز ہے اور اتنی ہی خطرناک بھی۔ جنگ میں تو آپ کو صرف ایک دفعہ مرنا پڑتا ہے لیکن سیاست میں کئی دفعہ موت آتی ہے۔‘
 4۔ ایسے مشیروں کی خدمات حاصل کرنا جو بجٹ کا زیادہ تر حصہ اپنی ذات پر صرف کر دیں۔
 5۔ مہم کیلئے مختص کردہ بجٹ کا زیادہ تر حصہ متعلقہ سرگرمیوں کیلئے ایک بڑی تنظیم بنانے کی بجائے میڈیا اور پولنگ پر خرچ کر دینا۔ اگر امیدوار میڈیا مہم پر بہت زیادہ خرچ کر دے لیکن افراد کی تنظیم اور انتخابات کے مقررہ دن کیلئے مہم کی سرگرمیوں پر توجہ نہ دے تو وہ یقینا ہار جائے گا۔ الیکشن کے دن کیلئے کارکنوں کی تنظیم کرنا کسی بھی انتخابی مہم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لے جانے اور رہنمائی کی سہولت فراہم نہ کی جائے تو ووٹ ڈالنے کی شرح گر جاتی ہے اور جن لوگوں نے اس مخصوص دن کیلئے تیاریاں نہیں کی ہوتیں، سب سے زیادہ نقصان میں رہتے ہیں۔
 6۔ سپورٹرز کے مرکزی حصے کیلئے باعث تحرک معاملات پر زور دینے میں ناکامی۔
 7۔ عوامی رائے شماریوں سے غلط تاثر لے لینا۔ ایسی رائے شماریاں ترجیحات تو ظاہر کر دیتی ہیں لیکن ان کی شدت کا تعین کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ سیاست میں لوگوں کو تحریک شدت سے ملتی ہے، ترجیحات سے نہیں۔
 8۔ مختلف طرف سے پڑنے والے دباو کی وجہ سے ایشوز پر کوئی ایک پوزیشن اپنا لینا یا بعض اوقات اپنی پوزیشن تبدیل کر لینا۔
 9۔ اپنی انتخابی مہم کے مرکزی حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے معمولی تنقیدوں پر ردعمل ظاہر کرتے رہنا۔ جو امیدوار ہر وقت اپنا دفاع کرتا رہے، وہ اکثر ہار جاتا ہے۔
 10۔ مخالفین، میڈیا یا دونوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی منفی اطلاعات پر مناسب ردِعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہناجبکہ کسی منفی ایشو کو نظرانداز کر دینے سے اس کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ جیتتا کون ہے؟ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی زحمت بڑی باقاعدگی سے دی جاتی رہتی ہے اور انتخاب کنندگان، سامنے آنے والے مختلف افراد یا مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کئے پروگراموں یا پالیسیوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ’مینڈیٹ دینے‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر منتخب ہونے والے عوام کے اعتماد پر پورے نہ اتر سکیں تو اگلے انتخابات میں مینڈیٹ واپس لے لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت، خواہ وہ اقتدار میں ہو یا اختلاف میں، مستقبل میں پوشیدہ انتخابات کو بھلانے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ آخری اپیل کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور برسراقتدار جماعت کو ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہئے جو اسے اقتدار میں لائے ہیں۔ عوام کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار ہونے کا خیال حکومت کو ہمیشہ چوکس رکھتا ہے اور ذاتی فائدے کیلئے اختیارات کے استعمال کے امکانات ختم کر دیتا ہے۔ منتخب ہونے والے کسی امیدوار کی اہلیت کے متعلق کسی عمومی اصول کا وجود نہیں ہے۔ صرف جمہوریت میں عام آدمی کے دل کی آواز کو احترام دیا جاتا ہے اور اس کیساتھ اختلاف کے نتائج کو مناسب و موزوں انداز میں جانچا جاتا ہے۔ ملک چلانے کیلئے ذمہ دار افراد کا انتخاب کرنے میں ہمیں غیرمتعلق خصوصیات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر، کسی کی پ ±رکشش شخصیت اور دل جیت لینے والی مسکراہٹ اس کی قابلیت کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، بزنس کیلئے رنگروٹوں کا انتخاب کرنے والے کبھی کسی ایسے فرد کا انتخاب نہیں کریں گے جس کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں منتخب ہونا ہو۔ اچھی انتظامیہ کی خدمات حاصل کرنے کیلئے کسی بھی بزنس میں ٹیلنٹ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ تجارتی ادارے اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ کسی عہدے کیلئے زیادہ سے زیادہ اچھے امیدواروں سے ملاقات کریں اور بعض اوقات حتمیفیصلہ کرنے سے پہلے وہ امیدواروں سے تین تین چار چار ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کا موازنہ لیڈر شپ ریس سے کیجئے جہاں شخصی کشش اور جماعت کی فوری رکنیت کو تجربے اور اہلیت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک دفعہ کسی نے کہا تھا کہ کینیڈا میں منتخب ہونے کیلئے درکار خصوصیات، اپنے عہدے کو دانشمندی سے استعمال کرنے کیلئے درکار خصوصیات سے بالکل متضاد ہیں۔ لیڈر شپ کے مباحث یا انتخابی مہم کے دنوں میں عموماً ووٹر اسی امیدوار کو دیکھ پاتا ہے جو اچھے تعلقات رکھتا ہو اور اپنے وسائل کو عمدگی سے استعمال کرنے کا اہل ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کامیابی کیلئے ضروری خصوصیات میں شخصی کشش، ایک دل جیت والی مسکراہٹ ، روکھی پھیکی باتیں ہلکے پھلکے انداز میں کرنے اور ہموار انداز میں گفتگو کرنے کی اہلیت شامل ہیں۔ یہ ریکروٹنگ کی ایک کلاسیکی غلطی ہے۔ ہم امیدواروں کا انٹرویو ایک غلط جاب کیلئے کر رہے ہیں۔ جاب تو سیاسی عزائم رکھنے والے ایک فرد کی ہے نہ کہ کسی قومی لیڈر کی۔ مندرجہ صدر خصوصیات شاید کسی ٹی وی نیوز کاسٹر کیلئے بہت اچھی ہوں لیکن کسی سیاست دان کی ذمہ داریوں میں کیمرہ کے سامنے مسکرانے کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔ ان سے ہٹ کر دیکھیں تو عمدہ لیڈر شپ کیلئے درکار صفات سامنے آتی ہیں۔ بصیرت، واضح نظر، عمدہ ٹیم جمع کرنے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپنے کی اہلیت، سمجھوتہ کرنے کی قابلیت اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کا عزم۔ ایک عام ووٹر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہ جاتا ہے کہ میرے ٹی وی پر دکھائی دینے والے امیدوار میں یہ صفات موجود ہیں یا نہیں۔ جب زور پالیسی کے بجائے ظاہری شخصیت پر دیا جا رہا ہو تو امیدواروں میں امتیاز کرنا یا ان کی پوزیشن کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ظاہری سٹائل اور عملی اقدار کی باہمی جنگ میں، انتخابی عمل کسی نوکری کیلئے دیئے جانے والے انٹرویو کی بگڑی ہوئی شکل بن جاتا ہے۔ ٹی وی پر آپ کے سامنے ایک امیدوار آتا ہے جو مہذب اور قابل نظر آنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا فرد ہے جو بڑی چالاکی سے اس کے دفاع میں گھس کر اس کے اندر چھپی ہوئی حقیقی کمزوریوں اور قوتوں کو باہر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ الیکشن میں انٹرویو لینے والے کو ایسے سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں دی جاتی جو کسی فرد کی شخصیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ ایسا کرنا تہذیب میں داخل نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے علاوہ، پیچیدہ معاملات پر واضح تجاویز پیش کرنے کا عمل طویل اور الجھا ہوا ہوتا ہے۔ ٹی وی پر ایسی باتیں پیش نہیں کی جا سکتیں۔ ایسی باتوں کی جگہ، لباس، سٹائل اور اطوار پر زور دیا جاتا ہے۔ امیدوار کو پہلی نظر میں چمکتا دمکتایا بجھا ہوانظر آنا چاہئے۔ اس کے مقابلہ کسی نوکری کیلئے انٹرویو دینے والے امیدوار کو اپنا تاثر مرتب کرنے کیلئے کم از کم 15 سیکنڈ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اور اگر انٹرویو لینے والے کی ذہنیت اور رویہ پیشہ ورانہ نہ ہو، تو وہ انٹرویو دینے والے کے کپڑوں کے رنگ یا چہرے کے تاثر کو دیکھ کر فوری فیصلہ کر لیتا ہے۔ کسی بھی فرد کو پرسکون ہونے اور اپنا آپ دکھانے میں وقت لگتا ہے، اور جب وہ اس نہج پر پہنچ جائے تو تب انٹرویو لینے والے کیلئے وقت ہوتا ہے کہ وہ اچھے طریقہ سے انٹرویو دینے میں امیدوار کی اہلیت کا اندازہ لگانے کی بجائے حقیقی کام انجام دے یعنی امیدوار کی اہلیت کا پتہ لگانے کی بے باکانہ کوشش کرے۔ بہت سے انٹرویو دینے والے گفتگو کے دوران بڑے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بعد ازاں بڑے باصلاحیت اور موثر مینیجر ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو اگر انتخابی مہم سے متعلقہ انٹرویو کیلئے ٹی وی پر بلایا جائے تو یقینا ٹی وی دیکھنے والے کی نگاہ میں بالکل ناکام اور نااہل ٹھہریں گے۔ ووٹروں کو تجارتی اداروں میں نوکریاں دینے والوں کے اصول و ضوابط کے ایک حصہ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ عوامی خدمات انجام دینے کے متمنی امیدواروں کا جائزہ ایسے لیجئے جیسے آپ اپنی فرم میں نوکری کیلئے درخواست دینے والے افراد کا جائزہ لیتے ہیں۔ نقل کو اصل سے ممیز کرنے کیلئے، اپنے آپ سے وہ سوال پوچھئے جو حقیقی پیشہ ورانہ انداز میں انٹرویو لینے کے ذہن میں سرِفہرست ہوتا ہے۔ ’جس کام کیلئے اس بندے کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، اس کی حقیقی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں انجام دینے کیلئے اس کی قابلیت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟‘ اگر اپنی فرم کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے آپ کو مارکیٹنگ وائس پریذیڈنٹ کی ضرورت ہو تو ممکنہ طور پر آپ کو متناسب جسم، عمدہ لباس، دھمکتی ہوئی آواز اور موتیوں کی لڑی جیسے چمکتے ہوئے دانت رکھنے والے فرد کی تلاش ہو سکتی ہے۔ لیکن ان جسمانی خصوصیات کے علاوہ عملی تجربہ اور مسائل کا اندازہ لگانے اور حل کرنے میں اچھا ریکارڈ بھی ضروری خصوصیات ہیں۔ جسمانی خصوصیات تو پہلی نظر میں دکھائی دے جاتی ہیں لیکن ایسی خصوصیات کا سراغ لگانے کیلئے آپ کو گہرائی میں اتر کر کھوجنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوکری کیلئے انٹرویو لینے والوں کے سوال سیاسی امیدواروں سے لئے جانے والے انٹرویو کے سوالات میں بھی شامل کئے جا سکتے ہیں مثلاً امیدواروں نے کون سی قائدانہ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ متعلقہ ذمہ داری کیلئے ان کا تجربہ کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟ ان کی کون سی کامیابیاں اس ذمہ داری کے حوالے سے کوئی اہمیت رکھتی ہیں؟ کیا یہ اتفاقِ رائے حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ دبا? کے مقابلے میں کسی طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟ کیا یہ تنقید قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ رچرڈ نکسن ’لیڈرز‘ میں لکھتے ہیں۔ ’اگر کامیاب لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کب سمجھوتہ کرنا ہے، تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کب اپنی بات منوانی ہے۔ آج کل بہت سے لیڈر رائے شماریوں کے گھوڑے پر سوار اپنی ’منزل‘ کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ رائے شماریوں کو مدنگاہ رکھنے والے امیدوار شاید انتخابات میں کامیاب ہو جائیں، لیکن لیڈر کی حیثیت سے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ رائے شماریاں ایسے معاملات کی نشاندہی کرنے میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں جن میں لوگوں کو کسی ایک بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہو لیکن اگر کوئی لیڈر صرف انہی کی مدد سے اپنے لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے تو وہ اپنی لیڈری کی اپنی ہی نفی کر دیتا ہے۔ لیڈر کا کام رائے شماریوں کی پیروی کرنا نہیں بلکہ رائے شماریوں کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ انتخابات کے کھردرے اور روایت شکن عمل میں، اسے اپنے پیرو?ں کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے اور یہ جاننے کا بھی کہ اس کے اپنے پاس آگے بڑھنے کی کتنی گنجائش ہے۔ اگر شاہِ ایران نے بھی اپنی مہم چلائی ہوتی تو شاید اپنی شاہی سے محروم نہ ہوتا۔‘ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک دفعہ ونسٹن چرچل رات کے وقت ایک خاکروب کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے خاکروب کی آواز آئی کہ
’کون ہے؟‘
’یہ میں ہوں، چرچل۔‘
’تم ووٹ لینے کیلئے آئے ہو! یہ آنے کیلئے کوئی مناسب وقت نہیں۔‘
 خاکروب نے جواب دیا اور مطالبہ کیا کہ چرچل اگلے روز صبح سویرے اس وقت آئے جب وہ اپنے کام پر جانے کیلئے تیار ہو۔اگلی صبح، دیئے ہوئے وقت سے پانچ منٹ پہلے، خاکروب کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اندر سے ایک بلند آواز آئی کہ
’چرچل ہو؟‘
’جی جناب، میں چرچل ہی ہوں۔‘
خاکروب نے جلدی سے دروازہ کھولا، بڑے احترام سے چرچل کو گھر کے اندر لایا اور اسے نہ صرف اپنے ووٹ بلکہ دلی تائید و حمایت کا یقین بھی دلایا۔ بعد ازاں اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے چرچل نے کہاکہ’عزت ہمیشہ بے عزتی سہہ کر ہی حاصل کی جاتی ہے۔‘ نوکری کیلئے درخواست دینے والوں کو مختصر دورانیہ کے سرسری سے بیانات دینے کی ہدایت کرنے کی بجائے، انٹرویو لینے والے انہیں بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اپنی امیدوں اور اندیشوں، قوتوں اور کمزوریوں کے متعلق گفتگو کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سچ ذرا آہستہ آہستہ ہی باہر آتا ہے۔ موجودہ ڈھانچہ کے پیش نظر، سیاست اس طرح کے تجزیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے‘ایسے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی، اگر وہ صرف ایسے سیاستدانوں کو منتخب نہیں کرنا چاہتے جن کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ایس اے ساگر

Login to post comments