×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

آٹھ شوال (یوم الہدم) بقیع کے تخریب کادن

مرداد 13, 1393 1471

کبھی آپ نے یوم الہدم کانام سناہے؟یوم الہدم یعنی ویران کرنے کادن۔۔۔۔۔۔ آٹھ شوال ۱۳۴۴ ھجری قمری میں ایک گروہ کو مکہ کےبعد

عبدالعزیزبن سعود کی سرکردگی میں مدینہ لایاگیااورشہرمیں محاصرہ کرنے کےبعدجنگ ہوئی اورعثمانی مامورین کو شہر سے باہرکیاگیااورآئمہ طاہرین علیہم السلام کے قبور کےعلاوہ فرزند پیامبرؑابراھیم اورآپؐ کی ازواج کے قبور ام البنین مادر حضرت اباالفضل العباس علیه السلام و قبرعبدالله والدبزرگوارپیامبرا ور اسماعیل فرزند امام صادق علیه السلام اوربہت سے قبروں کومنہدم کردیاگیا۔
لیکن یہ ان کا پہلاحملہ نہیں تھا انہوں نے۱۲۲۱ ھجری میں بھی ایک ہجوم لایا تھااورڈیرھ سال کے محاصرے کے بعدشہرپرقبضہ کیااوروہاں سے بہت سی قیمتی چیزوں کوحرم پیامبرصلی الله علیه و آله وسلم سے لوٹ لیااورقبرستان بقیع کو منہدم کردیا۔
دوسرادردناک ترین حادثہ جو آٹھ شوال۱۳۴۴ ھجری کوپیش آیا۔ اس سال سے مقدسات کی توہین اورتحقیر کے فتوے جاری کئے اوراهل‌بیت‌پیامبر(صلی‌الله‌علیه‌و‌آله وسلم)کے قبورپروحشیانہ حملہ کیابقیع کے قبروں کوویران کردیا کوئی نشان تک باقی نہیں رکھا۔
اس بارے میں (ایلدون رتر)نامی شخص کہتاہے مدینه‌منوره میں مراقد مطهر ائمه(علیه‌السلام)اس دفعہ قبروں کی ظاہری شکل کوبھی مکمل ختم کردیا۔
تاریخی شواہد کی بنیادپر یہ ثابت ہے ۔کہ حکومت سعودی نے فقط تخریب قبوربقیع پراکتفانہیں کیابلکہ مرقد مطہر پیامبر(ص)کوبھی منہدم کردیااوراپنی اس ناپاک سازش سے بازنہ آئے۔
’’لویس پورخارت‘‘نے اسلام قبول کرنے کےبعد اپنانام ابراہیم رکھا تھاوہ کہتاہے ۔جہاں پرائمہ طاہرینؑ اور صحابہ کرامؓ دفن ہوئےیہاں کی اس زمین میں اوران قبروں میں ایک جزابیت پائی جاتی ہے ان قبورکی زیارت میں تاثیرہےجواپنی طرف جلب کرتی ہے۔
پورخارت کوہ احد کے بارے میں بھی کہتاہے اس کوہ کے اندر جو مسجدتھی اس میں ، قبر حمزه، پیامبر (ص)کےچچااور دیگر شهدائےاحد اسی طرح،مصعب‌بن عمیر،جعفربن شماس وعبدالله‌بن جحش کے قبور نظرآتے تھے اُن لوگوں نے بارہ شہدائےاحدکےتن اورصحابی رسول (ص)کومسجد کیساتھ منہدم کردیا۔
 تاریخ کے مطابق انہوں نے اس حملے میں جواہرات سے بھرے یاقوت ، الماس اور قیمتی پتھروں سے مزین چار صندوق اور تقریبا سو تلواریں جن کے غلافوں کو خالص سونے، الماس اور یاقوت سے مزین کئے ہوئے تھے ان سب کو ہڑپ کرلیا۔
یہ بھی اسلامی مقدسات پر ان کا پہلا حملہ نہیں تھا ۔ مصنف اور مورخ صلاح الدین مختار اپنی کتاب’’تاریخ مملکۃ العربیۃ السعودیہ کما عرفت‘‘ میں کربلائے معلا پر حملے کے افتخار آفرین کارناموں کو شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے: ۱۲۱۶ھ میں امیر سعود نے نجد، حبوب، حجاز، تہامہ اور اطراف کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی کثیر تعداد کے ساتھ عراق کی طرف حرکت کی۔ ذی قعدہ کے مہینے میں یہ لوگ کربلا پہنچے اور اسے محاصرہ کر لیا۔ اس لشکر نے شہر پر دھاوا بول دیا اور طاقت کے زور پر شہر میں داخل ہوگئے ۔ شہر کے لوگوں کو کوچہ و بازار اور گھروں میں گھس کر قتل کردیا اور ظہر کے نزدیک بہت بڑی غنیمت اور مال و دولت کے ساتھ شہر سے نکل گئے۔پھر ابیض نامی جگہ پر سب جمع ہوگئے۔ پوری غنیمت کے پانچویں حصے کو خود سعود نے اٹھا لیا باقی اموال کو ہر سوار کو دو حصہ اور پیدل چلنے والے کو ایک حصہ دے کر تقسیم کر دیا (کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ جنگ کفار کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ تھی)۔
وہابی ایک اور مورخ عثمان بن بشر کربلا پر حملے کے بارے میں یوں لکھتا ہے: گنبد قبر (یعنی قبر امام حسین ؑ) کو ویران کردیا اور قبر پر موجود صندوق کہ جو زمرد ،یاقوت اور دیگر جواہرات سے بھرا ہواتھا اسے بھی اٹھا لیا اور جو کچھ شہر میں مال و دولت ، اسلحہ، لباس، بچھونے، سونا  و چاندی اور نفیس قرآنی نسخے جہاں کہیں بھی ملا اسے غارت کر لیا اور ظہر کے نزدیک شہر سے نکل گئے ۔ جبکہ ۲۰۰۰ ساکنین کربلا کو قتل کر چکے تھے۔
مزے کی بات تویہ ہے مزبورنےاپنی کتاب کانام ’’عنوان المجدفی تاریخ نجد‘‘ رکھاہے اوران واقعات کووہابیت کی نشانی اورکمالات کے طورپرذکرکیاہیں۔
ان کاہدف فقط مقدسات کی جگہ اپنی آثاراورکمالات کوبیان کرنانہیں تھا۔بلکہ حملے کامقصد مکہ مکرمہ اورطائف وغیرہ میں امامت کاوجود ختم کرناچاہتے تھے۔
’’جمیل صدقی زهاوی‘‘فتح طائف کے بارے میں لکھتاہے۔انہوں نے شیرخواربچہ کوماں کی گودسے چھین کرسرتن سے جداکیا۔کچھ لوگ قرآن پڑھنے میں مصروف تھے قتل کیا،گھروں ،دکانوں ،مسجدوں میں جاکے رکوع سجود کی حالت میں لوگوں قتل کردیا ،بہت سی کتابیں مصحف،صحیح بخاری اورفقہ واحادیث کی بہت سی کتابیں ،بازار میں لے جاکر پامال کردیا۔

یہ سب كيوں ہو ا؟
عام طورپر یہ ديكھا گيا ہيكہ اگر كسی كو كسی سے دشمنی ہوتی ہے تو مرنے كے بعد وہ دشمنی بھی ختم ہو جاتی ہے ،ليكن اہلبيت (ع) كےدشمن ، آج تك سر گرم عمل ہیں ،اس كی وجہ یہ ہے كہ اہل بيتؑ كا وہ عظيم كردار ہے جو لوگوں كو اپنا گرويدہ كئے ہوئے ہے اور اس كے آثار آج تك ظالم اور استعمار سے دشمنی كی شكل میں موجود ہیں لہٰذا پوری دنيا كے ظلم اور استعمار ہر ممكن طريقہ سے اہل بيتؑ اور عوام كے درميان پائے جانے والے رابطوں كو نابود كرنا چاہتے ہیں جس كے لیے قسم قسم كے ہتھكنڈے استعمال كئے جا تے ہیں۔
انہیں میں سے ايك ہتھكنڈہ اہل بيتؑ كی قبروں كا نام ونشان مٹادينا ہے ،تاكہ ان میں اور عوام میںپائے جانے والے روحانی رابطے منقطع ہو جائیں
یہ بات روز روشن كی طرح عياں ہے كہ دشمنان اہل بيت ؑ نے ہميشہ اہل بيتؑ كو صفحہ ہستی سے ہی ختم كرنا چاہا اور آج بھی یہ كوششیں جاری ہیں ۔
اب چاہے قبور كو منہدم كرنا پڑے يا دين احمدؐمیں تحريف كركے شرك اور بدعت كے فتوے صادركرنا پڑیں ۔
جيسے دشمن اہل بيت ؑ،ابن تيمیہ كے مشہور شاگرد ابن القيم نے اولياء خدا نيز پيغمبروں كی قبور پر عمارت بنانا حرام قرار ديا ہے وہ اپنی كتاب ”زاد المعادفی ھدیٰ خير العباد “میں لكھتا ہے كہ :قبروں پر تعمير شدہ عمارتوں كو ڈھانا واجب ہے اگر انہدام اور ويرانی ممكن ہو تو ايك دن بھی تاخير كرنا جائز نہیں ہے ۔
سورہ حجرات آيت ۲ كے تحت سعودی علماء نے رسولؐ كی تعظيم كا خيال نہیں ركھا يعنی رسولؐ كی زيارت كو شرك اور بدعت ثابت كيا ہے (جبكہ زيارت رسولؐ كے لئے بڑے بڑے جليل القدر صحابہؓ جايا كرتے تھے ) اور رسولؐ كا اس طرح دل دكھا يا كہ آل رسولؐ كے مزار جو جنت البقيع میں تھے ان كو بے سایہ كر ديا اور یہ امر مسلم ہے كہ رسولؐ كا دل دكھانا عذاب الہی كا ذريعہ ہے ۔
انہدام جنت البقيع كے لئے علماء سعودی نے كچھ ضعيف روايا ت كا سہارا ليا ہے اس پر آية اللہ جعفر سبحانی نے چند احاديث بيان كر كے روشنی ڈالی ہے جن میں سے ايك یہ ہے:عن جابر قال :نھی عن تجصيص القبور (ترجمہ :پيغمبر اسلام نے قبور كی گچ كاری سے منع كيا ہے )۔
یہ حديث مختلف اسناد ، مختلف صورتوں سے كتاب صحيح مسلم ،باب الجنائز ج ۳ ص ۶۲ پر نقل ہوئیں ہیں بحاولہ آئين وہابيت ۔
اور اسی طرح یہ حديث مختلف صوتوں سے صحاح اور سنن میں نقل كی گئی ہیں ۔
استاد محترم یہاں پر تبصرہ كرتے ہوئے لكھتے ہیں كہ جابر كی اس حديث میں متعدد نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا اس سے استدلال ناممكن ہے كيوں كہ اولاً حديث كی تمام اسناد میں ابن جريح اور ابو زبير كا نام كبھی تنہااو ر كبھی باہم ذ كر ہو ہے اگر چہ ان میں سے بعض دوسرے راوی بھی ضعيف و مجہول ہیں ليكن پھر بھی ان دو افراد كی حقيقت كا پتہ چل جانے كے بعد باقی راويوں كے متعلق بحث و گفتگو كی ضرورت نہ ہو گی ۔
ابن حجر اپنی كتاب تہذيب التہذيب میں ابن جريح كے متعلق علماء رجال سے یہ جملہ نقل كرتے ہیں يحيی ٰ بن سعيد كہتے ہیںاگر ابن جريح كتاب سے حديث نقل نہ كرتے تو ہر گز اس كی بات پر اعتماد نہیں كيا جا سكتا ۔
مالك كہتے ہیں حديث كی جمع آوری میں ابن جريح كی مثال اس شخص كے مانند ہے جو اندھيری رات میں لكڑياں جمع كر رہا ہو (لازمی طور پر سانپ بچھو كے ڈسنے كا خطرہ ہے )
احمد بن حنبل كے بیٹے احمد سے اور وہ ايوب سے نقل كرتے ہیں كہ وہ اسے ”ابو زبير “ كو ضعيف گردانتے تھے ۔
شعبہ سے منقول ہيكہ وہ تو نماز بھی اچھی طرح نہیں جانتا تھا ، شعبہ سے ايك دفعہ پوچھا گياكہ ابو زبيرسے حديث نقل كرنا كيوں چھوڑ دی ہے ؟ انھوں نے جواب ديا كہ جب میں نے ديكھا كہ وہ بد كردار ہے تو اس سے حديث نقل كرنا ترك كر ديا۔
اب صاحبان عقل و علم خود فيصلہ كریں كہ سرور انبياء كو ناراض كر كے اور ضعيف روايات كا سہارا لے كر حرمت قبور اہل بيت ؑ پر شرك و بدعت كے فتوے صادر كرنا اور مزار اہل بيتؑ كو منہدم كرنا كيا یہی تقر ب پروردگار كا وسيلہ ہے ؟
جنت البقيع كو منہدم كرنے والے ذيل كی حديث كی روشنی میںاپنے كردار كو ديكھیں كہ كہیں وہ تو اسكے مصداق نہیں ہیں
صحيح بخاری سے منقول ہيكہ ”نبی اكرمؐ نے فرمايا :مدينہ حرم ہے فلاں مقام سے فلاں مقام تك ، اس حد میں نہ كوئی درخت كاٹا جائے نہ كوئی جنايت كی جائے اور جس نے جنايت كی اس پر اللہ تعالی ٰ ، تمام ملائكہ اور انسانوں كی لعنت ہے ۔
اور اس حديث كی وضاحت مولانا عبدالشكور صاحب اس طرح كرتے ہیں ”۔۔۔اس كے درخت نہ كاٹے جائیں اور نہ اس میں كوئی نئی بات (ظلم و معصيت )كی جائے “۔
آداب زيارت میں مدينہ كی فضيلت بيان كرتے ہوئے صاحب ”در مختار “تاريخ مدينہ كے حوالے سے بقيع اور بقيع میں مدفون افراد كی فضيلت كے سلسلے میں اس طرح لكھتے ہیں :حضرت محمدؐ كی زيارت كے بعد اس قبرستان كی زيارت مستحب ہے جس كو بقيع الغر قد كہتے ہیں حديث سے ثابت ہوتا ہيكہ اس مقبرہ سے ستر ہزار بصورت قمر ليلة القدر اٹھينگے اور جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے ۔
اب ذرا غور و فكر كا مقام یہ ہے كہ جنت البقيع مدينہ منورہ میں ہے اور جنت البقيع میں آل رسولؐ كے مزار ہیں تو كيا ان كو منہدم كرنا تقرب الہی كا ذريعہ ہے ؟اگر ايسا نہیں ہے تو كيا قبرستان جنت البقيع كو منہدم كرنا ظلم و معصيت نہیں ؟يقينا یہ ظلم و معصيت ہے ۔
مندرجہ بالا احاديث كی روشنی میں بقيع كو منہدم كرنے والوں كو غور و فكر كرنا چاہئے كہ ہم اس فعل كے ذريعے خدا كے حبيب كا دل دكھا رہے ہیں او ر دل دكھانے والوں كے لئے خدا وند عالم قرآن مجيد میں اس طرح فرما رہا ہے :
ان الذين يو ٴ ذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنيا والآخرة و اعد لھم عذابا مھينا (يقينا جو لوگ خدااور اس كے رسول كو ستاتے ہیں ان پر دنيا اور آخرت میں خدا كی لعنت ہے اور خدا نے ان كے لئے رسوا كن عذاب مہيا كر ركھا ہے ۔
در مختار كی عبارت سے ثابت ہوتا ہے كہ قمر ليلةالبدر وہ افراد ہیں جو جنت میں بغير حساب كے داخل ہونگے تو ان میں كچھ افراد ايسے بھی ہونگے جو جنتيوں كے سردار ہونگے اہل جنت كے سرداروں كی نشان دہی صاحب ترمذی نے اس طرح كی كہ ”الحسن والحسين ؑسيدا شباب اھل الجنة ۔
جب جنتيوں كے چہرے قمر ليلةالبدر ہونگے تو ان سرداروں كے چہروں كی نورانيت كا كون اندازہ لگا سكتا ہے ۔
مگر افسوس ! اس كے بعد بھی مسلمانوں نے ان كی اہميت كو نہ سمجھایہ امر مسلم ہے كہ اہل بيت ؑ كی نا راضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے لہٰذا اہل بيتؑ كی ناراضگی كے اسباب میں اہل بيت ؑ كو آزار پہونچانا اور مرنے كے بعد انكی قبروں كی بے حرمتی كرنا اور صفحہ ہستی سے ہی محو كرنے كی كوشش كرنا شامل ہے ۔
اب جس كسی نے اہل بيت ؑ كو ناراض كيا تو وہ عذاب الہی كا مستحق ہو گيا لہٰذا اہل بيت ؑ كی خوشی سے نبی اكرمؐ اور اللہ خوش ہوگا ا س سلسلہ میں صحيح بخاری نے حضرت ابو بكرؓ كے حوالہ سے منقول ہے كہ : نبیؐ( كی خوشنودی )اور آپؐ كے اہل بيت ؑ كے ساتھ (محبت و خدمت كے ذريعے )تلاش كرو ۔
جنت البقيع كو منہدم كرنے والوں سے سوال كرتے ہیں كہ كيا ضعيف روايات كا سہارا لے كر جنت البقيع كو منہدم كر دينا،اور ان كی نشانيوں كو مٹا دينا ، یہی اہل عقل كے نزديك انصاف ہے ؟
كيا اس الم ناك واقعہ سے اللہ اور اس كا رسولؐ خوش ہو سكتے ہیں ؟كياپيغمبر اكرمؐ اپنی اولاد كے مزاروں كی اس طرح ظالموں كے ہاتھوں بے حرمتی ديكھ كر اپنے ان سركش اور باغی امتيوں سے راضی ہو سكتے ہیں ؟
ہر صاحب عقل یہی كہتا ہوا نظر آئيگا كہ جو رسولؐ مدينہ كے درختوں كے كاٹنے پر راضی نہیںہے تو وہ رسولؐ اپنی اولاد  كے مزار وں كی بے حرمتی كس طرح برداشت كر سكتا ہے؟
اس روايت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے كہ رسول اكرمؐ كو معلوم تھا كہ تيرہ سو سال بعد كچھ زبردست نام نہاد علماء وجود میں لائے جائیںگے جو مجھ كو قبر میں بھی سكون سے نہ رہنے دينگے اور مختلف صورتوں سے مجھ كو تكليفیں پہونچائيگے اورميری آل كی قبروں كی بے حرمتی كرينگے ۔
اسكی دليل یہ ہيكہ مرحوم صاحب خطبات محمدی ”اور ان كی طرح مختلف علماء نے اپنی كتاب میںكعب بن مالك سے مروی خطبہ نقل كيا ہے اس خطبہ كی درميانی سطر میں كچھ اپنی طرف سے اس طرح لكھا ہے ”۔۔۔تم سے پہلے امتيوں نے اپنے اپنے نبيوں كی قبروں كو مسجدیں بنا ڈالیں (يعنی ان كی قبروں پر اور انكی قبروں كے پاس وہ كام كرنے لگے جو مسجدوںمیںخداكے سامنے كرنا چاہے مثلا سجدہ ، ركوع ، ہاتھ باندھ كر با ادب كھڑے ہونادعائیں كرنا وغيرہ ) خبردار تمھیں اس سے روكتا ہوں “اگر صاحب خطبات محمدی اپنے بزرگ عالم جناب حاظ ابن حجر عسقلانی كی كتاب ”فتح الباری كا مطالعہ فرماتے تو شايد مولانا موصوف سے یہ غلطی نہ ہوتی حافظ حجر عسقلانی لكھتے ہیں كہ:جو لوگ قبروں پر تصويریں بناتے تھے ان كا مقصد یہ تھا كہ لوگ ان تصاويرسے مانوس ہوں اور انھیں ديكھ كر ان كے اعمال صالح ياد كریں اور ان كی طرح عباد ت میں كوشش كریں ۔
صاحب خطبات محمد ی نے انبيا ء كے مزار كے سامنے با ادب كھڑ ے ہونے اور دعائیں كرنے كی مخالفت كی ہے
مولانا موصوف كا مزاج ركھنے والوں كو معلو م ہونا چاہئے كہ جو قومیں اپنے بزرگوں كا احترام نہیں كرتیں وہ بہت جلد عذاب الہی كا شكا ر ہو جاتی ہیں اور دعا نہ كرنے والے كو خدا وند عالم نے متكبرين میں گردانا ہے ۔
مولانا موصوف نے با ادب كھڑے ہو نے كی مخالفت كی ہے ليكن مولانا موصوف نے بزرگ عالم جناب ملا علی قاری زيارت كرنے اور آرام سے بیٹھنے كی اجازت ديتے ہیںاور اس طرح لكھتے ہیں ۔
”جب قبر پر خيمہ كسی فائدہ كی بنا پر لگايا جائے مثلا قاری خيمہ كے نيچے بیٹھ كر قرآن مجيد پڑھے تو پھر اس كی حديث میں ممانعت نہیں ہے مشہور علماء اور مشايخ نے سلف صالحين كی قبروں پر عمارت بنانے كو جائز قرار ديا ہے تاكہ لوگ ان كی زيارت كریں اور آرام سے بیٹھیںصاحب خطبات محمد ی كے بزرگ عالم علامہ بدرالدين عينی حنفی صاحب ، ميت كے احترام كے بارے میں كچھ ا س طرح لكھتے ہیں : اگر ميت پر خيمہ نصب كرنے كی كوئی صحيح غرض ہو تو جائز ہے جيسے زندہ لوگوں پر دھوپ سے سایہ كرنے كی غرض سے خيمہ نصب كرنا ۔
جنت البقيع منہدم كرنے والے خوب جانتے ہیں كہ ہماری مقدس شخصيتوں كے بارے میں كيا لكھا ہے ۔
مثلا علامہ عبد الوہاب شعرافی لكھتے ہیں كہ :ميرے شيخ علی اور بھائی افضل الدين عام لوگوں كی قبروں پر گنبد بنانے ، تابوت ركھنے اور چا دریں چڑھانے كو مكروہ قرار ديتے تھے اور كہتے تھے كہ قبروں پر گنبد اور چادریں صرف انبياء اور اكابر اولياء كی شان كے لائق ہیں ۔
علماء اور صاحب خطبات محمدی كا مزاج ركھنے والے سورہ حجرات كے تحت اور شيخ عبدالغنی نايلسی كی تحرير كو پڑ ھ كر سيكھیں كہ تعظيم كس طرح ہوتی ہے ۔
اس موضوع پر كشف النور میں شيخ عبد الغنی تابلسی نے جو كچھ لكھا ہے اس كا خلاصہ یہ ہے كہ جو بدعت حسنہ شارع كے مقصود كے موافق ہو وہ سنت كہلاتی ہے لہٰذا علماء اور صلحاء كی قبروں پر گنبد بنانا اور ان كی قبروں پر چادریں اور عمامے چڑھانا جائز كام ہے جبكہ اس سے یہ مقصود ہو كہ عوام كی نگاہوں میں ان كی تعظيم پيدا كی جائے تاكہ وہ صاحب قبر كو معمولی نہ سمجھیں اسی طرح ان كی قبروں كےپاس قنديلیں اور شمع كو روشن كرنا بھی باب تعظيم میں سے ہے كيونكہ اس میں نيك مقصد ہے اور تيل او رشمعوں كی نذر اللہ كے لئے ہوتی ہے جو ان كی قبروں پر ان كی تعظيم اور ان سے محبت كے اظہار كے لئے جلائی جاتی ہیں یہ بھی ايك جائز كام ہے اس سے منع نہیں كرنا چاہئے ۔
علماء اہلسنت كے مندرجہ بالا اقوال سے یہ ثابت ہوتاہے كہ انبيا ء او ر اوليا ء خدا كے مزاروں كو آباد كرنا شرك اور بدعت نہیں ہے ۔
اہل بيتؑ افضل الانبياء ہیںتو ضعيف روايا ت كا سہار الے كر اہل بيت ؑ كے مزاروں كو منہدم كرنا كسی طرح جائز نہیں ہے ۔
لہٰذا جنت البقيع منہدم كرنے والوں كو كم از كم اپنے بزرگ علماء كے اقوال كے تحت غور و فكر كرنا چاہئے اور اللہ كے حبيب حضرت محمد مصطفی كی تكليف كا باعث نہیں ہونا چاہئے اس لئے كہ :والذين يو ٴذ ون رسول اللہ لھم عذاب اليم
ہر مسلمان كو چاہئے كہ درد ناك عذاب سے بچنے كے لئے نيك اعمال انجام دے اور اہل بيت ؑ كو وسيلہ قراردے اور اللہ كی بارگاہ میں دعا كرے ۔۔۔

Last modified on دوشنبه, 13 مرداد 1393 10:50
Login to post comments