×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

ایسے بھی رقم ہوگی تاریخ !

ارديبهشت 29, 1393 767

16ویں لوک سبھا کا سب سے بڑا جمہوری تہوار اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے جاری سیاسی دھماچوکڑی کے تھمتے ہی حکومت سازی اور

وزارت کی تقسیم کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش شروع ہوچکی ہے ۔ ہر انتخاب اپنے اندر کئی انفرادیت رکھتا ہے ، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ہر جمہوری تہوار کو کسی نہ کسی نظریہ سے ہمیشہ یاد رکھتا جاتا ہے ۔ اس کے تناظر میں سیاسی پنڈت تجزیہ وتبصرہ کرتے ہیں اور اس طرح کئی افکار ونظریات سامنے آتے ہیں ، اس کے بعد قانونی سطح پر کچھ نہ کچھ حکمت عملی تیار کی جاتی ہے ۔ 2014کا یہ عام انتخابات بھی کئی ایک لحاظ سے یاد گار رہے گا۔ تشہیری مہم کی بازی گری سے لے کر الیکشن کمیشن کی جانبداری اور تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود بھی کالے دھن کی نمائش اور شراب نوشی کی گرم بازاری وضبطی کے تناظر میں یہ الیکشن ہمیشہ کے لیے یاد کیا جائے گا ۔ اسی طرح گذشہ انتخابات کے بہ مقابلے اس انتخابی موسم میں نامور سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی آر کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔
 اعداد وشمار پر نظر ڈالنے سے 2014کا سیاسی منظرنامہ اپنی انفرادیت خود درج کروائے گا ۔ قابل ذکرسیاستدانوں پر کچھ اس طرح ایف آئی آر درج ہوئے ہیں ۔ امت شاہ کے خلاف 3، اعظم خان 3، نریندرمودی 2،کانگریس لیڈر بینی پرساد ورما 3، بی جے پی لیڈر پی سی سورکار 1،کانگریسی لیڈر اجے رائے ،شکتی سنگھ موہل پر ایک ایک ایف آر ہوئی ۔ پورے ملک میں مجموعی طور پر 75ہزار 306ایف آئی آر درج ہوئے ۔ کالے دھن کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی کوششوں کے باوجود بھی کالے دھن کے استعمال میں اضافہ ہوا ۔ ساتھ ہی ساتھ نقدی اور شرا ب کی ضبطی نے پچھلے تمام ریکاڑ کو توڑدیاہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں 313کروڑ ، 2.25کروڑ لیٹر شرا ب اور چار کروڑ جعلی نوٹ بھی ضبط کیے گیے اور کالے دھن ریکارڈ153کروڑ روپیے کی ضبطی ہوئی ۔ ان اعداد وشمار کے بعد مجموعی طور پر گذشہ عام انتخابات کے صرفے کے تناظر میں موجودہ انتخابات کی خرچ کو سامنے رکھنے سے بھی بخوبی اندازہ ہوگا کہ اب جمہوری تہوار جمہوریت پسند عوام کا نہیں رہ گیا ہے ،بلکہ اب جمہوریت کی چمک سرمایہ داری کے سامنے بالکل ماند پڑگئی ہے ۔ سولہویں لوک سبھا انتخابات نے خرچ کے معاملے میں پچھلے تمام ریکاڑ توڑ یے ہیں ۔ اس الیکشن میںمجموعی طوڑ پر 34سو26کروڑ روپیے خرچ ہوئے ۔ 1952میں ہونے والے پہلے لوک سبھا الیکشن میں 10کروڑ 45 لاکھ کا صرف آیا ، اس کے بعد علی الترتیب 1967میں 5کروڑ 90لاکھ ، 1962میں 7کروڑ 32لاکھ ، 1967میں 10کروڑ 80لاکھ ، 1971میں 11کروڑ 61لاکھ ، 1977میں 23کروڑ 4لاکھ ، 1980میں 54کروڑ 77لاکھ ، 1984-85میں 81کروڑ 57لاکھ ، 1989میں 154کروڑ22لاکھ ، 1991-92میں359کروڑ 10لاکھ، 1996میں 597کروڑ 34لاکھ ، 1998میں 666کروڑ 22لاکھ ، 1999میں 947کروڑ 68لاکھ ، 2004میں 1113کروڑ ، 88لاکھ،2009میں 1483کروڑ روپیے عام انتخابات میں صرف ہوئے ۔  
اس الیکشن کی سب سے اہم انفرادیت تو یہی ہے کہ یہ سب سے خرچیلا الیکشن تھا۔اس میں شک نہیں کہ گزرتے زمانہ کے ساتھ مہنگائی میں جس قدر  اضافہ ہورہا ہے ، اسی طرح الیکشن بھی مہنگا اور خرچیلا ہوتا جاتا ہے ۔ 16لوک سبھا انتخابات میں متواتر الیکشن خرچیلا ہی ہوتا گیا ۔ صرف دو الیکشن ایسے تھے کہ جن میں خرچ کا تناسب گھٹا ، یعنی 1957اور1962کے انتخابات میں کمی آئی ۔ان دونوں کے علاوہ دوسرا الیکشن پہلے الیکشن کے مقابلہ میں خرچیلا ہی رہا ۔ 2009اور 2014کے الیکشن کی خرچ میں جو تفاوت ہے ، جو وہ پہلے انتخابات کے درمیان پائی جانی والی تفاوت سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ 2009میں جہاں ساڑھے 14سو کروڑ کا خرچہ آیا وہیں 2014کے الیکشن میں تقریباً 35سوکروڑ روپئے خرچ ہوئے ۔ یعنی ان دونوں الیکشن کے درمیان دوگنا سے بھی زیادہ خرچ بڑھ گیا ،یہ بات اپنی جگہ مسلم کہ انتخابی خرچ کی حد 70لاکھ تک کردی گئی ہے ۔اس بڑھی ہوئی حدکے مدنظر اگر خرچ کا تخمینہ لگائیں تو کوئی 23سوکروڑکا خرچہ آئے گا ،لیکن اس بار ساڑھے 34کروڑ روپیے خرچ ہوئے ۔ یہ خرچ نہ تخمینہ کے اعتبار سے سمجھ میں آنے والی بات ہے اور نہ ہی ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کے درمیان ہونے والے خرچ کا تناسب اس کا مویدہے ۔خرچ کے اس اعدادوشمار سے اندازہ کیا ہی جاسکتاہے کہ جمہوری تہواروںمیں کس جمہوری قدریں باقی رہ گئیں ہیں ۔ خرچیلے الیکشن کے تناظر میں یہ تصور کیا ہی نہیں جاسکتا ہے کہ اب الیکشن جمہوریت کے پاسداروں کے لئے آسان رہ گیا ہے ،بلکہ  کہنا مناسب ہے کہ جمہوریت سرمایہ داروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے ۔
سیاست میں شفافیت لانے کی بات بڑی شدومد سے کی جاتی ہے کہ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خرچیلے الیکشن کے باوجود کیسے سیاست میں شفافیت آسکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ کروڑوںروپیے لٹاکر کسی ایک سیٹ پرکامیابی حاصل کرنے والا سیاستداں کیسے شفافیت کا کھیل کھیلنے میں یقین رکھ سکتا ہے ۔ عوام کی فلاح وبہبود سے کہیں زیادہ اسے اس بات کی فکر رہے گی کہ الیکشن میں خرچ کئے گئے سرمایوںکو کیسے واپس جمع کیا جائے ۔ ظاہر ہے وہ دودھ پانی کا کھیل کرنے پر ہمیشہ تلا رہے گا ، ایسے میں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ سیاست میں شفافیت آئے گی ۔ انتخابی خرچ کی حد 70لاکھ کرنے کا فلسفہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے ،بلکہ یہ خرچ بڑھانا بدعنوانی کو قانونی سرٹیفکٹ فراہم کرنے کے برابر ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک ممبر آف پارلیمنٹ کو قانونی اعتبارسے تنخواہ سمیت بہ مشکل تمام پورے مہینے میں کوئی 80ہزار روپیے ہاتھ لگتے ہیں ، اس لحاظ سے پانچ برس میں تقریباً 50لاکھ روپیے ہی اوپر ہو پائیں گے ، اس صورتحال میں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ قانون کا پاسدار 70لاکھ روپیے خرچ کرنے والا ممبر آف پارلیمنٹ 20لاکھ گھٹا سہہ لے گا۔ 70لاکھ کا تجزیہ تو قانونی حیثیت سے کیا جارہا ہے ،و رنہ تو نہ جانے کتنے 70لاکھ ایک امیدوار خرچ کردیتا ہے ۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو الیکشن کے تناظر میں بدعنوانی کو قانونی سند مل رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جمہوریت کو جمہوریت پسند عوام سے الگ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ بے روزگاری اور غربت کی بڑھتی شرح کے زمانے میں الیکشن کو مہنگا بنا نا جمہوریت کے لیے منافی اس طرح بھی ہے کہ دولت کی ریل پیل میں غریب طبقوںکے ذریعہ سیاستداں نتائج متاثر کروانے میں بازی مارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  یہاں پر یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت زیرضمانت کے لیے لی جانے والی فیس 10ہزار سے بڑھا کر 25ہزار کردیا جانابھی جمہوریت کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنانے کی سازش چل رہی ہے ۔جس نہج پر الیکشن کی سرگرمیاں عروج پرہیں، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ جمہور ی تہوار میں جمہوریت پسند عوام کا کردار کمزور ہوتا جارہا ہے ۔
آرپار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلمان عبدالصمد

Last modified on دوشنبه, 29 ارديبهشت 1393 13:30
Login to post comments