کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی با قاعدہ حکو مت کا آغاز حسب روایت آئین کے مطابق صدر جمہو ریہ ہند کے خطاب کے ساتھ کر دیا ۔
صدر جمہو ریہ ہند پر نب مکھر جی نے مہنگا ئی اور بد عنوانی پر روک لگانے کو اپنی حکو مت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہو ئے ملک کے شر پسندوں، سرکشوں ،نفس کے غلاموں اور عو رتو ں پر ظلم کر نے والوں ،دھشت گردوں ،انتہا پسندوں اور فسادات پھیلانے والوں کوصاف لفظوں میں متنبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکو مت خواتین پر تشد د ،دھشت گردی ،انتہا پسندی اور فسادات کے سلسلہ میں زیر و ٹا لر ینس پالیسی اپنائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت غربت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے عہد بند ہے ۔ انہوں نے عوام کے معیا ر زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اور تر قی کو فر وغ دینے کے لئے حکومت کے نئے منصو بوں اور پروگراموں کا اعلان کیا ۔
اقلیتی فر قہ کی غربت سے بے حالی پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے صدر نے کہا کہ آزاد ی کیبعد کے اتنے بر س گذرجانے کے با وجود اقلیتی فر قہ غر بت سے بے حال ہے ۔صدر نے اپنے خطا ب میں یہ بھی کہا کہ اقلیتی فر قہ کو جدید اور تکنیکی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ قو می مد ر سہ کی جدید کاری بھی کی جائے گی ۔ گو یا حکومت کے نز دیک مسلمانوں کی قابل رحم بری حالت مسلمانوں کی جدید اور تکنیکی تعلیم سے دوری اور دینی مدارس کے پرانے طر ز نصاب سے ہے ۔اس لئے حکو مت کے منصو بہ ساز وںنے مسلمانوں کی حالت سدھا ر نے کے لئے ان کو ان کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تر قی یا فتہ علوم وفنون اور جدید تکنیک یا فتہ علوم سے آراستہ کر نے کا منصو بہ بنا یا ہے ۔حکومت کا خیال ہے کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو بہت ممکن ہے مسلمانوں کی حالت میں سدھار آجائے گا ۔
مسلمانو ں کے حق میں مو دی حکومت کی یہ مثبت فکر انگیزی نر یند ر مو دی کے اس خواب کی غمّا زی کر تی ہے جو انہو ں نے اپنی انتخابی مہم کے دو ران دیکھا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمان نو جوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیو ٹر دیکھنا چا ہتے ہیں ۔اب وہ حکو مت میں آئے ہیں تو انہوں نے اپنے خواب کو حقیقت میں بد لنے کے لئے اسکو اپنے حکو متی منصو بہ میں شامل کیا ہے ۔مودی نے قو می مدر سہ کی جدید کا ری کامعا ملہ اپنی حکو مت کے منصو بوں میں شامل کر کے اپنے طو ر پر مدر سہ چلا نے والوں کو اپنے خلاف منھ کھو لنے کا چیلنج دید یا ہے۔وہ علما ء جن کا ذر یعہ معا ش دین کے نام پر ان مدا رس کا قیام اور مدر سو ں کے نام سے زمینو ں کی حصو لیابی ہے اور سفیرو ں کو کمیشن پر مقر ر کر کے مدر سہ کے لئے رقم اُگانا ہے ،وہ مو دی حکو مت کے اس منصو بہ میں اپنے مفاد پر نقصان کی مار دیکھ کر مخا لفت بر ائے مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں گے ۔بی جے پی پر فر قہ پر ستی کا لیبل چسپا ں ہے ۔اس لئے ان کی بڑی تعداد قومی مدر سہ کی جدید کا ری کو سر کا ری مدا خلت کے ذ ر یعہ یہو دی منصو بو ں کی تکمیل قرار دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچا ئے گی ۔اس لئے ہما را حکو مت کے لئے یہ مشو رہ ہے کہ وہ اسکو لو ں میں مذہبی تعلیم کو لا زمی قرار دیدے ،اور اسکو لوں میں زیر تعلیم طلباء کے لئے ان کے اپنے اپنے مذہب کے مطا بق مذہبی تعلیم کا نصاب تیار کر ا کر مولو یوں ،بنڈتوں ،پادریوں کو اور دیگر مذا ہب کے عا لمو ںکو تعلیم دینے کے لئے روز گا ر سے لگا دے ۔اس طر ح ہند وستا ن کے بچوں کو مذہبی ٹھیکہ داروں سے چھٹکا ر ا حا صل ہو جائے گا ۔
انگر یز وں نے 1857ء سے قبل مد ر سہ غازی الد ین جواب ذاکر حسین دہلی کالج کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اسمیں زیر تعلیم ہند و ستا نیوں کو انگر یز ی زبان کے علا وہ عر بی اور فارسی اور مشر قی علو م سے آراستہ کرکے اپنی حکو مت کے اہل کا ر کے قابل بنا کر افسرا ن کی ِذمہ دا ر یا ں سپر دکی ہیں چنا نچہ اس مد رسہ کے فار غ التحصیل تعلیم یا فتہ مسلمانوں میں ایک مولوی نذ یر احمد بھی تھے ۔یہ حضرت اپنے زمانہ کے مولو یوں کی حالت کا اپنی حالت سے مقابلہ کر تے ہو ئے لکھتے ہیں ۔اگر میں دلّی کا لج میں نہ پڑ ھا ہو تا تو میں بتا ؤ ں میں کیا ہو تا ،مولوی ہو تا ،تنگ خیا ل ،متعصب، اکھل گھرا ،اپنے نفس کے ا حتساب سے فا رغ ،دو سر وں کے عیوب کا متجسّس،بر خود غلط ،مسلمانوں کا دو ست ، تقا ضا ئے وقت کی طر ف سے اند ھا بہرہ ۔(بحوالہ فکر نو )
پیش نظر عبا رت میں جوبات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ مغلیہ دور حکو مت میں جس تعلیمی نظام نے مولوی نذ یر احمد کو ڈپٹی نذیر احمد بنا یا ، وہ اس دور کے مدر سہ نظام کے جدید کاری نظام نے ہی بنا یا ۔اس کی تصو یر غالبؔ کے ایک جملہ سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ شمع تو بجھ گئی مگر سو ر ج نکل آیا ‘‘۔(بحو الہ فکر نو )
اب فیصلہ قو م کے دانشوروں اور ذمہ دار وں کو کر نا ہے کہ وہ قو می مدر سہ کے جدید کاری نظام سے تعلیم حاصل کر ا کے تعلیم دلا کے اپنے ہو نہا روں کو ڈپٹی نذ یر احمد بنا نا چا ہتے ہیں یا پھر اپنے خود کے وــضع کر دہ نصاب تعلیم سے جو آج کل مدر سوں میں رائج ہے اپنے بچوں کو تعلیم دلا کر ایسا مولوی بنا کر ہی دین وقو م کی خد مت قرا ر دینے پر اکتفا کر تے ہیں جس کے کر دار کے خدو خال کا نقشہ مولو ی نذ یر احمد نے کھینچا ہے کہ اگر میں دلّی کا لج میں نہ پڑھا ہوتا تو میں بتا ؤں میں کیا ہو تا ۔…………
یہ تو رہی تعلیم کے ذر یعہ مسلما نوں کی حالت سد ھا ر نے کی بات ھما رے نزدیک مسلمانوں کی بد حالی کے تعلیم کے علا وہ داخلی اور خارجی اسباب بھی ہیں ۔ داخلی اسباب میں گھر یلو سطح پر جھگڑے فسا د اور نا انصا فیا ں اور ان کے نتیجہ میں مقدموں کا طو یل سلسلہ کہ مقد مہ فیصل ہو نے تک فر یقین کا مقد موں کی کا ر روا ئیوں میں لگے رہنے کے باعث او ر ذہن وجسم کے تھک جانے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم وتر بیت کو زمانہ اور قسمت کے رحم وکو م پر چھو ڑ کر اوربچوں کو ان کے حال پر چھو ڑکر بے خبر ہو جانا بھی ہے ۔اس کے لئے اگر حکو مت چاہے تو مسلما نوں کے معا شر ہ کا سر وے بھی کر سکتی ہے ۔ہم نے ایک سیا سی جلسہ کے مو قع پر جسٹس سچر سے ایک ذاتی ملاقا ت کے دو ران ان کے سا منے یہ بات رکھی بھی تھی مگر انہوں نے دیگر لو گو ں کے مخل ہو نے کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا ۔ان گھر یلو جھگڑو ں کے علا وہ انگریز وں کی غلا می کی بطو ر علامت ملکی سطح پر ہو نے والے بے شما ر فر قہ وا را نہ فسا دا ت ہیں جو نہ صر ف مسلمانو ں کی تر قی کے بھی دشمن ہیں بلکہ ہمارے محبو ب ملک ہند و ستا ن کی تر قی کے دشمن ہیں ۔نر یند ر مو دی حکو مت اگر ان فسا دا ت کے حمایتوں پر جو ہو نے والے فسا دوں کی آڑ میں اپنی لیڈری چمکا تے ہیں ،قد غن لگا ئے تو یہ بھی قو م وملک کی تر قی کے لئے بہتر ہی ہو گا ۔
ڈاکٹر محمدبشیر احمد
تازہ ترین