×

هشدار

JUser: :_بارگذاری :نمی توان کاربر را با این شناسه بارگذاری کرد: 830

توحید قرآن کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے

تیر 25, 1393 693

مسئلہ توحید قرآن حکیم کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے ہے۔ اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ

بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں لیکن سورۃ الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی توحید کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو سورۂ توحید بھی کہتے ہیں۔ اس سورہ میں توحید کے سات بنیادی ارکان بیان کئے گئے ہیں۔ اگر ان ارکانِ سبعہ کو ملا لیا جائے تو عقیدۂ توحید مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک رکن کی بھی عقیدتاً خلاف ورزی ہو جائے تو توحید باقی نہیں رہتی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اللہ ہے جو یکتا ہے اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے‘‘
الاخلاص، 112 : 1 ۔ 4
اس سورت میں بیان شدہ توحید کے ارکانِ سبعہ کی تفصیل درج ذیل ہے :
واسطۂ رسالت
ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا
احدیّت
صمدیّت
لا وَلَدیّت
لا والدیّت
لاکفویّت
پہلا رکنِ توحید : واسطۂ رسالت
سورۂ اخلاص کا آغاز لفظِ ’’قُل‘‘ سے کیا گیا جس کا معنی ہے : ’’(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے۔‘‘ کیا فرما دیجئے؟
هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
’’وہ اللہ ہے جو یکتا ہے‘‘
یہ مختصر مضمون جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یعنی اس کے ایک ہونے کو بیان کر رہا ہے، اس کی وحدتِ مطلقہ کا بیان ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر برہانِ ناطق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے پیارے! ہم چاہتے ہیں کہ توحید کا مضمون بیان کرنے کے لئے تیری زبان اِستعمال ہو۔ جو کچھ اس سے نکلے، میری ہستی پر دلالت کرے۔ میرے ایک ہونے کا مضمون اتنا بلند ہے کہ اس کی ادائیگی کا حق تیری زبان سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اے محبوب! مجھے تیری اُمت کو ایمان سے بہرہ ور کرنا ہے مگر اِن کا میری نسبت عقیدۂ ایمان تب متحقق ہوگا جب یہ آپ سے سن کر آپ کی بات کو سچا مان کر مجھے ایک مانیں گے۔
*  ’’قُل‘‘ عنوانِ رسالت ہے اور ’’هُوَ الله عنوانِ توحید
الله رب العزت نے سورۂ اخلاص کی ابتداء لفظ قُلْ سے فرمائی۔ لفظِ ’’قُلْ‘‘ عنوانِ رسالت ہے جبکہ عنوانِ توحید ’’هُوَ الله  ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ کے ہونے کا براہِ راست علم (Direct knwledge) حاصل ہو گیا تو وہ علم ’’وحدانیت‘‘ ہے، عقیدۂ توحید نہیں۔ کیونکہ وہ علم بغیر واسطۂ رسالت کے ہے اور اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ ہی نہیں تھا لہٰذا وحدانیت کا تصور ایمان تب بنتا ہے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان لانے میں واسطہ و وسیلہ بنیں۔

Last modified on چهارشنبه, 25 تیر 1393 13:24
Login to post comments