جواب دیا .ایک منتخب حصہ یہ ہے .جس کا خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .ا س کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے .جنہوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے
اس روایت کا تتمہ یہ ہے پھر اس شخص نے کہا کہ وہ کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہمیں جانا پڑا آپ نے کہا کہ قضاکے معنی حکم باری کے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے .وقضی ربّک الا تعبدوا الا ایاہ اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا .یہاں پر قضی بمعنی امر کے ہے .