Loading...

  • 14 Nov, 2024

آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ نیو یارک ٹائمز

آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ نیو یارک ٹائمز

دونوں ممالک نے اس سال کے شروع میں براہ راست حملے کیے تھے، جس سے مکمل جنگ کے خدشات پیدا ہوئے تھے

نیو یارک ٹائمز (NYT) کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے جواب میں اسرائیل پر براہ راست حملے کا حکم دیا ہے۔ اس پیش رفت نے مزید کشیدگی اور وسیع تر علاقائی تنازعے کے خطرات کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔

ایرانی ردعمل اور مبینہ ہدایات

اسماعیل ہنیہ اور ان کے ایک باڈی گارڈ کی موت کے نتیجے میں ہونے والے میزائل حملے کے بعد، آیت اللہ علی خامنہ ای نے مبینہ طور پر ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا اور اسرائیل پر براہ راست حملے کا حکم دیا۔ ایرانی سپریم لیڈر نے حملے کا بدلہ لینے کی ذمہ داری پر زور دیا اور اسرائیل کی مذمت کی کہ اس نے ہنیہ کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ایران میں مہمان تھے۔

اسرائیلی کارروائیاں اور کشیدگی

اسرائیل نے پہلے ہی حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور دیگر کو نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا، جس کے نتیجے میں اہم جانی نقصانات ہوئے تھے۔ جاری تنازعے نے اسرائیل اور ایران کے درمیان شدید تناو پیدا کیا ہے، جس میں پہلے بھی براہ راست فوجی جھڑپیں اور جوابی حملے شامل رہے ہیں۔

غیریقینی صورتحال اور ممکنہ منظرنامے

مبینہ ایرانی ہدایات نے ایران کے ممکنہ ردعمل اور اس کی طاقت کی سطح کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ ایرانی فوجی کمانڈر مختلف اختیارات پر غور کر رہے ہیں، جن میں تل ابیب اور حیفہ کے قریب فوجی اہداف پر ڈرونز اور میزائلوں کے مشترکہ حملے شامل ہیں۔ مزید برآں، یمن، شام، اور عراق میں اتحادی افواج کے ساتھ مربوط حملے کی قیاس آرائیاں بھی ہیں۔

بین الاقوامی خدشات اور ردعمل

ایران کی جانب سے اسرائیل پر براہ راست حملے کے امکان نے وسیع تر نتائج اور بڑے علاقائی تنازعے کے خطرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس صورتحال نے بین الاقوامی رہنماؤں کی توجہ حاصل کی ہے، جنہوں نے ممکنہ نتائج اور مزید کشیدگی کو روکنے کی ضرورت پر بات چیت کی ہے۔

نتیجہ

اسماعیل ہنیہ کے قتل کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے مبینہ منصوبے نے مزید کشیدگی اور وسیع تر علاقائی تنازعے کے خطرات کے بارے میں اہم خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس صورتحال نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے نازک توازن کو اجاگر کیا ہے اور مزید کشیدگی کو روکنے اور علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔