امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
اتوار کے روز، جو کہ اربعین کے موقع پر تھا، لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے اسرائیلی حکومت کے خلاف مقبوضہ علاقوں کے اندر گہرائی تک ایک بڑے پیمانے پر جوابی فوجی کارروائی کی۔
آپریشن کا جائزہ
اتوار، 25 اگست 2024 کو، حزب اللہ نے اسرائیلی افواج کے خلاف ایک اہم فوجی آپریشن شروع کیا، جو اربعین کی مناسبت سے کیا گیا۔ یہ کارروائی حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر، فواد شکر کے قتل کا پہلا انتقامی حملہ تھا۔ لبنانی مزاحمتی تحریک نے دعویٰ کیا کہ یہ آپریشن مکمل طور پر کامیاب رہا، اور اس نے مقبوضہ علاقوں کے اندر متعدد اسٹریٹجک فوجی مقامات کو نشانہ بنایا۔
اہم ہدف اور حکمت عملی
حزب اللہ کے اس آپریشن میں **320 کاتیوشا راکٹس** سے زائد کا استعمال کیا گیا، جو اسرائیل کے چھ فوجی اڈوں، تین بیرکوں اور دو توپ خانے کے مقامات پر داغے گئے۔ مرکزی ہدف **میروں بیس** تھا، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں واقع ہے اور اسرائیلی فوجی آپریشنز کے لیے اہم ہے۔ اس بیس میں فضائی جنگ، ریڈار، نگرانی، اور مواصلاتی سہولیات موجود ہیں، اور یہ شمالی محاذ پر اسرائیل کی فضائی جنگ اور انٹیلی جنس آپریشنز کا مرکزی کمانڈ سینٹر ہے۔
میروں بیس، جو **1 کلومیٹر بائے 200 میٹر** کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور **1200 میٹر** کی بلندی پر واقع ہے، اس وقت توسیع کے مراحل میں ہے۔ اس بیس کی شناخت تین بڑے ریڈار گنبدوں سے کی جا سکتی ہے، جن میں جدید ریڈار انٹیناز موجود ہیں، جو لبنان اور شام پر بڑے پیمانے پر سگنل انٹرسیپشن اور نگرانی کرنے کے قابل ہیں۔ اس بیس نے الیکٹرانک جنگ میں بھی حصہ لیا ہے، خاص طور پر جنوبی لبنان اور شمالی مقبوضہ فلسطین میں سیٹلائٹ پر مبنی مقام کے نظام میں خلل ڈالنے کے معاملے میں۔
تاریخی پس منظر میں میروں بیس کو نشانہ بنانے کی وجوہات
حزب اللہ نے میروں بیس کو اکثر نشانہ بنایا ہے کیونکہ یہ بیس لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی فضائی آپریشنز کی نگرانی کرتی ہے۔ خاص طور پر، مئی 2006 میں، ایک فلسطینی کمانڈر کے قتل کے بعد، حزب اللہ نے اس بیس پر ایک درست راکٹ حملہ کیا۔ اکتوبر 2023 میں غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے، اس بیس کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا، اور ہر حملے کے بعد بڑے پیمانے پر نقصان کی اطلاع دی گئی۔
حزب اللہ نے حالیہ آپریشن میں کاتیوشا راکٹس کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی فضائی دفاع کو زیر کیا، جبکہ درست میزائلوں کے ذریعے ریڈوم اینٹیناز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حکمت عملی کا مقصد زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور اسرائیلی فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا۔
اضافی اہداف اور حکمت عملی
میروں بیس کے علاوہ، حزب اللہ نے کئی دیگر فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا، جن میں **نوی زیو** اور **زاؤرا** میں توپ خانے کے مقامات اور **کیلا، یواو، اور راموت نفتالی** میں بیرکیں شامل ہیں۔ اس آپریشن کا مقصد نہ صرف نقصان پہنچانا تھا بلکہ اسرائیل کے آئرن ڈوم انٹرسیپٹر سسٹم کو تھکا دینا بھی تھا، تاکہ اسرائیل کی سرزمین کے اندر مزید ڈرون حملوں کی راہ ہموار ہو سکے۔
ابتدائی مرحلے کے بعد، حزب اللہ نے **گلیلوٹ انٹیلیجنس بیس** اور **عین شمر ایئربیس** پر ڈرون حملے بھی کیے۔ گلیلوٹ بیس، جو لبنانی سرحد سے تقریباً **110 کلومیٹر** کے فاصلے پر واقع ہے، اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس یونٹ 8200 کا آپریشنل ہیڈکوارٹر ہے، جو فوجی ماہرین کے لیے اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ عین شمر ایئربیس فضائی دفاع کے لیے اہم ہے اور اس میں جدید میزائل سسٹم موجود ہیں۔
نتیجہ اور اثرات
حزب اللہ کا حالیہ فوجی آپریشن اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعہ میں ایک اہم پیشرفت کی نمائندگی کرتا ہے۔ گروپ کی قیادت، خاص طور پر سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ، نے اس بات پر زور دیا کہ یہ حملے اسرائیلی جارحیت، خاص طور پر فواد شکر کے قتل کے جواب میں کیے گئے تھے۔ اگرچہ اس کارروائی کو انتقامی کارروائی کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن یہ حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کو ظاہر کرنے اور خطے میں اسرائیلی غلبے کو چیلنج کرنے کی حکمت عملی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
جیسے جیسے کشیدگی بڑھ رہی ہے، ان حملوں کے اثرات مزید فوجی جھڑپوں کا باعث بن سکتے ہیں، اور دونوں فریق انتہائی چوکسی کی حالت میں ہیں۔ یہ صورتحال خطے میں طاقت کے نازک توازن کو ظاہر کرتی ہے اور اگر اشتعال انگیزی جاری رہی تو وسیع تر تنازعہ کے امکانات کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔