Loading...

  • 14 Nov, 2024

ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ

ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا کہنا ہے کہ حزب اللہ، حماس اور پاسدارانِ انقلاب کے عہدیداروں کی ہلاکت کے بدلے میں درجنوں میزائل داغے گئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا بڑھتا ہوا تناؤ

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران، ایران نے اسرائیل کے خلاف میزائل حملہ کیا ہے، جسے حزب اللہ اور حماس کے اعلیٰ عہدیداروں کی حالیہ ہلاکتوں کے جواب میں ایک بڑا اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ اس حملے سے اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل گیا، شہریوں نے بمباری سے بچنے کے لیے پناہ گاہوں کا رخ کیا، اور یروشلم اور تل ابیب سمیت بڑے شہروں میں خطرے کے الارم بجنے لگے۔

حملے کی تفصیلات

ایرانی میزائل حملہ منگل کی رات کو ہوا، جس میں اطلاعات کے مطابق درجنوں میزائل اسرائیلی علاقوں کی جانب داغے گئے۔ ایران کی اسلامی انقلابی گارڈز کور (IRGC) کے مطابق، یہ فوجی کارروائی حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ، حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر نیلفروشاں کی ہلاکت کے بدلے میں کی گئی ہے۔ IRGC کا کہنا تھا، "اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ اور نیلفروشاں کی شہادت کے جواب میں ہم نے مقبوضہ علاقوں کے قلب کو نشانہ بنایا۔"

حملے کی شدت کے باوجود، اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے بتایا کہ میزائل حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم تل ابیب کے علاقے میں دو افراد معمولی زخمی ہوئے۔ ہگاری نے عوام کو یقین دلایا کہ صورتحال قابو میں ہے اور اسرائیلی فوج مزید کسی خطرے کو محسوس نہیں کر رہی۔

ایرانی دعوے اور فوجی تیاریاں

ایرانی سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 80 فیصد میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے، لیکن اسرائیلی فوج نے اس کے برعکس کہا کہ "بہت بڑی تعداد" میں میزائلوں کو ان کے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا گیا۔ IRGC نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران کی جانب سے مزید تباہ کن حملے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے اس تنازعے میں مزید شدت آنے کا خدشہ ہے۔

ایرانی حکام کے مطابق، یہ میزائل حملہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے براہِ راست حکم پر کیا گیا، جو کشیدگی کے پیشِ نظر ایک محفوظ مقام پر موجود ہیں۔

بین الاقوامی ردِعمل اور علاقائی اثرات

میزائل حملے کے بعد، امریکہ نے اسرائیل کو اضافی دفاعی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے کہا کہ امریکی افواج ایران کے حملے کے بعد خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران، عراق میں ایران نواز گروپوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اس تنازعے میں مداخلت کرتا ہے یا اسرائیل نے ایرانی فضائی حدود کے لیے عراقی علاقے کا استعمال کیا تو وہ امریکی اڈوں کو نشانہ بنائیں گے۔

یہ میزائل حملے لبنان میں اسرائیلی زمینی حملوں کے بعد ہوئے ہیں، جو کہ گزشتہ اکتوبر میں غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے خطے میں ہونے والے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ بیروت سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، ایران کے میزائل حملے پر کچھ شہریوں نے جشن منایا اور سڑکوں پر فائرنگ اور آتشبازی کی۔

اردن کا ردعمل اور وسیع تر خدشات

اردن میں، شہری ہوابازی کے حکام نے میزائل حملے کے بعد فضائی ٹریفک کو عارضی طور پر معطل کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق، اردنی فضائی دفاعی نظام نے کچھ میزائلوں اور ڈرونز کو ناکام بنا دیا جو اردنی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے، جس سے اس تنازعے کے خطے پر پڑنے والے اثرات واضح ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خطے میں مسلسل بڑھتے ہوئے تنازعات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس تنازعے کو روکنے کے لیے فوری سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔


نتیجہ

اسرائیل کے خلاف ایران کا میزائل حملہ مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں مزید فوجی تصادم کے امکانات ہیں۔ چونکہ دونوں فریق ممکنہ جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں، بین الاقوامی برادری گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اس امید میں کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حل کی امید ہے جس سے خطے کو وسیع تر تنازعات میں لپیٹنے کا خطرہ ہے۔