امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
تل ابیب کے قریب بین گوریون ایئرپورٹ پر حوثیوں کے میزائل حملے کے ایک دن بعد، مغربی یمن میں اسرائیلی حملے
خطے میں کشیدگی کا بڑھتا ہوا سلسلہ
مشرق وسطیٰ میں فوجی کارروائیوں میں ایک سنگین پیش رفت کے طور پر، اسرائیلی فوج نے یمن میں حوثی ٹھکانوں پر ایک سلسلہ وار فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ یہ حملے اس وقت کیے گئے ہیں جب حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تل ابیب کے قریب بین گوریون ایئرپورٹ پر میزائل حملہ کیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب غزہ اور لبنان میں جاری تشدد کے درمیان پورے خطے میں ایک بڑے تنازعے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
فضائی حملوں کی تفصیلات
اتوار کے روز اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ اس نے درجنوں طیارے، بشمول لڑاکا جیٹ، مغربی یمن کے اہم حوثی ٹھکانوں پر حملے کے لیے روانہ کیے۔ حملوں کا نشانہ خاص طور پر راس عیسیٰ اور حدیدہ کی بندرگاہوں پر موجود اہم حوثی تنصیبات تھیں۔ حوثیوں سے منسلک المسیرہ ٹی وی کے مطابق، ان حملوں میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک بندرگاہ کا مزدور اور تین الیکٹریکل انجینئرز شامل ہیں۔ ان حملوں نے حدیدہ میں وسیع پیمانے پر بجلی کے بحران کو بھی جنم دیا، جس سے وہاں کے رہائشیوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہوئی۔
اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق، یہ کارروائیاں حوثیوں کے طرف سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ تھیں۔ حوثی مسلسل اسرائیل کے خلاف جارحانہ فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں، اور پچھلے سال سے متعدد ڈرون اور میزائل حملے اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ حوثی اپنے ان اقدامات کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر پیش کرتے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعہ کے تناظر میں۔
حوثیوں کی میزائل دھمکیاں
اسرائیلی فضائی حملوں کا وقت خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ یہ حوثیوں کے اس اعلان کے فوراً بعد کیے گئے جس میں انہوں نے بین گوریون ایئرپورٹ پر ایک بیلسٹک میزائل حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس میزائل حملے نے مبینہ طور پر اسرائیل کی فضائی دفاعی نظام کو پار کیا، جس سے آگ بھڑک اٹھی اور ہوائی حملے کے سائرن بجا دیے گئے، جس سے ایئرپورٹ کے قریب رہائشی خوف و ہراس میں مبتلا ہو گئے۔ حوثیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی میزائل صلاحیتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں، اور حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کا میزائل وسطی اسرائیل تک پہنچ چکا ہے۔
ایران کا کردار اور علاقائی مضمرات
اسرائیلی فوج نے حوثیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایران کی ہدایت اور مالی تعاون کے تحت کام کر رہے ہیں اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے اور اسرائیل کو دھمکیاں دینے کے لیے عراقی ملیشیاؤں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ یہ الزام اس پیچیدہ صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور خطے میں جاری تنازعات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فضائی حملوں کے ردعمل میں، ایرانی وزارت خارجہ نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں "غیر انسانی" قرار دیا اور امریکہ پر اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ ایرانی ترجمان ناصر کنعانی نے ان حملوں پر تنقید کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر دھواں اٹھا اور خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
تنازع کا وسیع تر سیاق و سباق
یمن میں فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب اسرائیل لبنان میں بھی اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً دس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ حوثیوں نے خاص طور پر حزب اللہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے اسرائیلی حملے میں ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں۔
جیسے جیسے تنازعہ آگے بڑھ رہا ہے، حوثیوں نے لبنان پر اسرائیلی حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے پورے خطے میں مزید دشمنی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ان تنازعات کی آپس میں جڑت مشرق وسطیٰ میں طاقت کے نازک توازن کو ظاہر کرتی ہے، جہاں ایک ملک میں ہونے والی کارروائیوں کے اثرات دوسرے ممالک تک پہنچتے ہیں۔
نتیجہ
یمن میں حوثی ٹھکانوں پر اسرائیلی فضائی حملے جاری علاقائی تنازعہ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف فوجی کارروائیوں اور سیاسی اتحادوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے بلکہ انسانی بحران کو بھی جنم دے رہی ہے۔ جیسے جیسے کشیدگی بڑھ رہی ہے، ایک وسیع تر تنازعے کے امکانات کے ساتھ، خطے اور دنیا بھر میں اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔