امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
اسرائیل کے ہاتھوں حسن نصر اللہ کے قتل پر حزب اللہ کے حامیوں نے شدید دکھ اور حیرت کا اظہار کیا۔
کمیونٹی میں صدمہ
ایک بدقسمت جمعہ کی شام، بیروت کا سکون اس وقت ٹوٹ گیا جب اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک تباہ کن فضائی حملہ کیا، جس میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی جان چلی گئی۔ یہ حملہ داحیہ، جو کہ لبنانی دارالحکومت کا جنوبی مضافاتی علاقہ ہے، میں شہری ہلاکتوں کا سبب بھی بنا۔ بہت سے رہائشی اس واقعے پر شدید حیرت اور غم کا شکار ہو گئے۔ مریم، ایک مقامی رہائشی، نے اپنے گھر سے فرار کی ہولناک صورتحال کو بیان کیا: "جب میں نے پہلی بار یہ خبر سنی تو میں نے سوچا کہ یہ جھوٹ ہے، میں نے سوچا، 'یہ سچ نہیں ہو سکتا'،" اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ان کے اور کئی دیگر لوگوں کے لیے نصر اللہ صرف ایک سیاسی شخصیت نہیں تھے، بلکہ حفاظت اور طاقت کا ایک ذریعہ تھے۔
قیادت کا ایک طویل سفر
حسن نصر اللہ 1992 میں حزب اللہ کے رہنما بنے، جب ان کے پیشرو عباس الموسوی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ ایک باغی گروہ سے ایک مضبوط فوجی قوت میں تبدیل ہوئی، جس نے جنوبی لبنان کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی نے انہیں وسیع پیمانے پر پذیرائی دلائی، خاص طور پر لبنانی شیعہ مسلمانوں میں، جنہوں نے انہیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک ہیرو کے طور پر دیکھا۔ ان کا قائدانہ انداز، جو کہ کرشماتی اور حکمت عملی سے بھرپور تھا، نے انہیں مشرق وسطیٰ کی سب سے بااثر شخصیات میں شامل کر دیا۔
تاہم، نصر اللہ کی میراث پیچیدہ ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں مداخلت کے ان کے فیصلے پر تنقید کی گئی، جس سے بعض حلقوں میں ان کی مقبولیت کم ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود، ان کے بہت سے پکے حمایتی وفادار رہے، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ نصر اللہ ہی وہ واحد رہنما ہیں جو لبنان کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ایک شہید کی یاد
نصر اللہ کی موت کے بعد، داحیہ سے بے گھر ہونے والے خاندان بیروت کے وسط میں جمع ہوئے اور اپنے گہرے غم اور نصر اللہ کے لیے عقیدت کا اظہار کیا۔ نوال، ایک حزب اللہ کی حامی، نے انہیں ایک "شہید" کے طور پر بیان کیا، جس نے اپنی زندگی اسرائیلی افواج کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ "وہ ہمارے لیے ایک والد کی مانند تھے، وہ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے"، اس نے کہا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ لوگوں کا ان کے ساتھ جذباتی رشتہ کتنا گہرا تھا۔ نوال نے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عہد کیا، جو کہ ان لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے جو خود کو ایک بڑے مزاحمتی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں۔
خوف اور غیر یقینی
نصر اللہ کے نقصان نے لبنانی شیعہ مسلمانوں کو خوف اور غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ حزب اللہ کے سینئر کمانڈروں سمیت اہم نقصانات نے کمیونٹی میں ایک شدید خطرے کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ نوال نے اسرائیلی جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "کیا آپ اسرائیل کے تمام جرائم نہیں دیکھ رہے؟ وہ سب کچھ بمباری اور تباہ کر رہے ہیں"، جس سے موجودہ حالت کی سنگینی کو اجاگر کیا۔ ان چیلنجوں کے باوجود، وہ اور دیگر امید رکھتے ہیں کہ حزب اللہ مضبوط رہے گی اور اپنی مشن کو جاری رکھے گی۔
حسن، 25 سالہ رہائشی، نے بھی ان خیالات کا اظہار کیا کہ مزاحمت قربانیوں کے باوجود جاری رہے گی۔ اس نے نصر اللہ کو جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت قرار دیا، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعہ کے تناظر میں۔ "انہوں نے غزہ کے لیے آواز اٹھائی"، اس نے کہا، نصر اللہ کی فلسطینی کاز کے لیے وابستگی کا اعتراف کرتے ہوئے۔
غیر یقینی مستقبل
حالیہ تشدد کے بعد، بہت سے لوگ، بشمول محمد، ایک شامی شہری جو لبنان میں مقیم ہے، مستقبل پر غور کر رہے ہیں۔ "ہم انہیں صہیونیوں کے خلاف ڈٹ جانے والے کے طور پر یاد رکھیں گے"، اس نے کہا، لیکن علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور اس کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا۔ مزید بمباری اور عدم استحکام کا خوف بڑھتا جا رہا ہے، جس سے رہائشی جیسے مریم خود کو کھویا ہوا اور غیر یقینی محسوس کر رہے ہیں۔
مریم، جو اپنے خاندان کے ساتھ گھر سے فرار ہوئی تھی، نہ صرف اپنے محلے کے نقصان بلکہ اس تحفظ کے احساس کا بھی سوگ منا رہی ہے جو نصر اللہ کی موجودگی فراہم کرتی تھی۔ "جب وہ ہمارے ساتھ تھے تو ہم خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے"، اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ کمیونٹی کا غم نمایاں ہے، کیونکہ وہ نقصان کے بعد کے حالات اور لبنان کے مستقبل کے بارے میں سوالات کے ساتھ زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔