امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 13 سے 18 جولائی تک پابندی کی تجویز نفرت انگیز مواد، غلط معلومات پر قابو پانے اور اس حساس دورانیے میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کی ضرورت کے تحت دی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں یوٹیوب، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک سمیت اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چھ دن کے لیے عارضی پابندی لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز کا مقصد سلامتی کے خدشات کو دور کرنا اور مذہبی جلوسوں، خصوصاً محرم کے عاشورہ کے جلوسوں کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنا ہے جو اقلیتی شیعہ مسلمانوں کی جانب سے منائے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 13 سے 18 جولائی تک پابندی کی تجویز نفرت انگیز مواد، غلط معلومات پر قابو پانے اور اس حساس دورانیے میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کی ضرورت کے تحت دی گئی ہے۔ یہ تجویز ابھی تک حتمی نہیں ہوئی، لیکن اس نے پنجاب کے 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں پر ممکنہ اثرات کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔ پابندی کو نافذ کرنے کا فیصلہ آخر کار وفاقی حکومت، جس کی قیادت وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، کے ہاتھ میں ہوگا، جو مریم نواز کے چچا ہیں، جو پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔
تناظر اور خدشات
تجویز کردہ پابندی خاص طور پر محرم الحرام کے دسویں دن سے منسلک ہے، جو کہ شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم موقع ہے، جس میں مذہبی رہنما حسین ابن علی، جو کہ نبی محمد کے پوتے ہیں، کی شہادت کی یاد منائی جاتی ہے۔ اس دوران ممکنہ بدامنی اور سلامتی کے خطرات کے بارے میں حکومت کی تشویش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عارضی پابندی کی تجویز کو جنم دیا ہے۔
یہ اقدام پاکستانی حکام کی طرف سے سوشل میڈیا کو نشانہ بنانے کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سال کے شروع میں، X (سابقہ ٹویٹر) کو قومی انتخابات کے دوران قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے چار ماہ سے زائد عرصے تک بلاک کر دیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر پابندی کو شہری حقوق کے کارکنوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جنہوں نے آزادی اظہار کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر حکومتی خلاف انتخابی دھاندلی کے الزامات کے تناظر میں۔
سیاسی اور سماجی اثرات
تجویز کردہ پابندی اپوزیشن رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے متعلق ایک اہم قانونی فیصلے کے ساتھ متوازی آتی ہے۔ پابندی کے وقت نے عوامی مکالمے اور ملک میں سیاسی ترقیات پر ممکنہ اثرات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کے وسیع تر تناظر، جس میں سیاسی مباحثوں اور حکومت پر تنقید کا کردار شامل ہے، اس تجویز کردہ پابندی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اختلاف رائے اور عوامی مکالمے کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر سوشل میڈیا کا استعمال ملک کے سیاسی منظر نامے کی ایک نمایاں خصوصیت رہا ہے، خاص طور پر اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے خان کی برطرفی جیسے اہم واقعات کے بعد۔
نتیجہ
پنجاب، پاکستان میں اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کی تجویز حکومت کی طرف سے سلامتی کے خدشات کو دور کرنے اور ایک حساس مذہبی دورانیے کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، اس طرح کی پابندی کے آزادی اظہار، سیاسی مباحثے اور عوامی شمولیت پر ممکنہ اثرات کا محتاط جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے تجویز کردہ پابندی کے بارے میں بحثیں جاری ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ فیصلہ کیسے سامنے آئے گا اور پاکستان میں ڈیجیٹل منظر نامے اور عوامی مکالمے پر اس کا وسیع تر اثر کیا ہوگا۔
BMM - MBA
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔