امن کی خوش فہمی: امریکہ اور اسرائیل کے غزہ کے مستقبل کے حوالے سے متضاد نظریات
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
Loading...
تہران اور ماسکو کے درمیان فوجی تعاون سے مغربی طاقتوں کو خوف کیوں؟
تعارف
جغرافیائی سیاسی منظرنامے پر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے ایران پر روس کو بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کے الزامات نے ہلچل مچا دی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل، رائٹرز، اور سی این این جیسے مغربی ذرائع ابلاغ نے ان الزامات کی ابتدا کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایران یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے۔ بعد میں امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے ان الزامات کی تصدیق کی اور ایران ایئر پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ فضائی خدمات کے معاہدے بھی معطل کر دیے۔
تاریخی پابندیاں اور ایران کی مزاحمت
ایران کو طویل عرصے سے پابندیوں کا سامنا ہے، خاص طور پر اس کی اہم ایئرلائن کو نشانہ بنانے والی پابندیاں۔ لہٰذا تہران ان حالیہ اقدامات سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان نہیں رکھتا۔ تاہم، یہ صورتحال اس مسئلے کو دوبارہ اجاگر کرتی ہے کہ مغرب نے ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں تاخیر کی، حالانکہ جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی پر بھی بات چیت ہو رہی تھی۔ ایرانی رہنما، بشمول صدر مسعود پزیشکیان، نے روس کو میزائل منتقلی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور قومی مفادات اور سلامتی کو اقتصادی فوائد پر ترجیح دینے کی پالیسی کو برقرار رکھا ہے۔
ایران کی اسٹریٹیجک صف بندی
گزشتہ دہائی میں، ایران نے مغربی پابندیوں کو کم کرنے اور خاص طور پر یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ روس نے ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر 2015 کے جوہری معاہدے کے دوران۔ ان کوششوں کے باوجود، ایران روس اور چین کے ساتھ زیادہ مضبوط شراکت داری میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے۔ ایران کی خود انحصاری کی پالیسی اسے ہزاروں سالوں سے اپنی شناخت اور خودمختاری کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتی رہی ہے۔
ایران کا میزائل پروگرام اور فوجی صلاحیتیں
ایران کے ہتھیاروں کی پیداوار، خاص طور پر میزائلوں کے بارے میں تفصیلات مبہم اور خفیہ ہیں۔ تاہم، مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے میزائل ذخیرے میں کروز اور بیلسٹک میزائل شامل ہیں جن کی رینج ہزاروں کلومیٹر تک ہے۔ یہ صلاحیتیں چین اور شمالی کوریا کے تعاون سے حاصل کی گئی ہیں، جنہوں نے ایران کو ٹیکنالوجی اور مہارت فراہم کی ہے۔
ایران کا فوجی صنعتی کمپلیکس نہایت وسیع ہے، جو ہوابازی، توپ خانہ، بکتر بند گاڑیاں، گولہ بارود، الیکٹرانکس، بحری تعمیرات اور کیمیائی جنگ کے شعبوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، میزائل کی ترقی ایران کی اولین ترجیح ہے، اور اس کام کو اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کی نگرانی میں تقریباً سات بڑے مراکز میں انجام دیا جاتا ہے۔
مغربی رویوں میں تبدیلی
ابتدائی طور پر، مغربی ممالک اور علاقائی مخالفین ایران کے میزائل پروگرام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ پابندیاں اور تکنیکی تنہائی ایران کی فوجی ترقی کو روک دے گی۔ تاہم، ایران کے جوہری پروگرام کی ترقی کے ساتھ ساتھ مغرب نے ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کو تسلیم کرنا شروع کیا، جو خاص طور پر اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
مغربی الزامات اور ایران کا مؤقف
صدر پزیشکیان کی واضح تردید کے باوجود، مغربی ممالک ان الزامات سے غیر متفق ہیں۔ امریکہ کے رسمی الزامات کے بعد، سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئیں اور امریکی اور برطانوی حکام نے یوکرینی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جس میں یوکرین کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی درخواست پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نتیجہ
مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کے باوجود، تہران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مستقبل کے تعاون کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ ایران اپنی خودمختاری اور سٹریٹیجک شراکت داری کو اہمیت دیتا ہے اور مغرب کی طرف سے پیش کردہ دباؤ یا مراعات کی بجائے اپنے مستقل راستے پر گامزن رہنے کا فیصلہ کر رہا ہے۔
Editor
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
عراق کی حالیہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کو ختم کرنے اور لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے میں امریکی ناکامی خطے کو ہمہ گیر جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔