امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ان پر کسی بھی حملے کا مطلب حملہ آور کی "موت کی خواہش" ہوگی۔
قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد الزامات
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جان کو لاحق سنگین خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، جنہیں وہ ایران سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب ان کی انتخابی مہم کی ٹیم اور نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے دفتر (ODNI) کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ODNI نے اس ملاقات کی تفصیلات کو عوامی نہیں کیا، تاہم ٹرمپ کی مہم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس گفتگو کا مرکزی موضوع "ایران کی جانب سے انہیں قتل کرنے کی حقیقی اور مخصوص دھمکیاں" تھا، جو امریکہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹرُتھ سوشل' اور ایکس (پہلے ٹویٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا، "ایران کی جانب سے میری زندگی کو بڑے خطرات لاحق ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ امریکی فوج اس صورتحال کی کڑی نگرانی کر رہی ہے، اور ایران پہلے ہی ان کے خلاف ناکام اقدامات کر چکا ہے۔ "ایران نے کچھ اقدام پہلے بھی کیے تھے جو کامیاب نہیں ہوئے، لیکن وہ دوبارہ کوشش کریں گے۔ یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا،" ٹرمپ نے خطرات کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا۔
سیکیورٹی میں اضافہ اور ریلی کے دوران بیانات
اسی روز نارتھ کیرولائنا کے علاقے منٹ ہل میں ایک ریلی کے دوران ٹرمپ نے اپنی جان کو لاحق خطرات پر مزید روشنی ڈالی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اب میں پہلے سے کہیں زیادہ گارڈز، ہتھیاروں اور فوجیوں سے گھرا ہوا ہوں۔" انہوں نے خبردار کیا کہ سابق صدر پر کسی بھی حملے کا مطلب حملہ آور کے لیے "موت کی خواہش" ہوگا۔ ان کا یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف ذاتی خطرات محسوس کرتے ہیں بلکہ انہیں وسیع تر جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں کے عکاس سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید دعویٰ کیا کہ اگر وہ ابھی بھی صدر ہوتے تو وہ ایران کے خلاف سخت موقف اپناتے۔ انہوں نے کہا، "اگر میں صدر ہوتا تو میں ایران کو پیغام دیتا کہ اگر تم نے اس شخص کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی تو ہم تمہارے بڑے شہروں اور ملک کو نیست و نابود کر دیں گے۔" انہوں نے موجودہ قیادت، صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی پالیسیوں نے ایران جیسے دشمنوں کو جرات دی ہے۔
حالیہ قاتلانہ حملے اور ایرانی ردعمل
ٹرمپ نے دو حالیہ قاتلانہ حملوں کا بھی ذکر کیا، جن میں سے ایک جولائی میں بٹلر، پنسلوانیا میں ایک ریلی کے دوران اور دوسرا ستمبر کے وسط میں ان کے گولف کلب، ویسٹ پام بیچ، فلوریڈا میں پیش آیا۔ اگرچہ انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ یہ حملے ایران سے منسلک ہیں یا نہیں، انہوں نے کہا، "یہ ایران سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ ہوں، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔"
ان الزامات کے پس منظر میں ایران کی جانب سے سابق ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا وعدہ شامل ہے، جو جنوری 2020 میں ٹرمپ کی صدارت کے دوران ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوئے تھے۔ جولائی میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایران کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ایران سلیمانی کے قتل میں ٹرمپ کے کردار کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھے گا۔
نتیجہ: سیاسی کشیدگی میں اضافہ
ٹرمپ کے ایران سے جان کو خطرات کے دعوے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب وہ ریپبلکن صدارتی نامزدگی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے بیانات نہ صرف ان کی ذاتی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ قومی سلامتی اور بیرونی خطرات کو انتخابی مہم کا حصہ بنا کر اپنی حامی جماعت کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے 2024 کا صدارتی انتخاب قریب آتا ہے، یہ الزامات عوامی رائے اور ٹرمپ کی صدارتی مہم کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔