امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
عراقی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملک میں اب امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں رہی۔
فوجی موجودگی کا خاتمہ
امریکہ نے عراق میں اپنی فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، جو اگلے بارہ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ امریکہ اور عراق کی مشترکہ حکومتوں کے بیان میں کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، خصوصاً اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری تنازعات کے پیش نظر، یہ فیصلہ اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ممالک کے حکام کے درمیان طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا، جس میں عراقی اعلیٰ عسکری کمیشن اور عالمی اتحاد بھی شامل تھے۔ امریکی فوجی موجودگی اب ایک دو طرفہ سیکیورٹی شراکت داری میں تبدیل ہو جائے گی اور اس تبدیلی کا عمل ستمبر 2025 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
شام میں جاری آپریشن
اگرچہ عراق سے امریکی فوجی مشن کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے، لیکن امریکی افواج پڑوسی ملک شام کے تیل سے مالا مال علاقوں میں 2026 تک موجود رہیں گی۔ اس کا مقصد داعش کی دوبارہ اُبھرتی ہوئی دہشت گردی کے خطرے کو روکنا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس آپریشن کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کو آسان بنانے کے لیے ایک مخصوص کمیشن قائم کیا جائے گا تاکہ عراق میں موجود فوجی مشیروں کی حفاظت اور انخلاء کو یقینی بنایا جا سکے۔
پینٹاگون کی ترجمان سبرینا سنگھ نے وضاحت کی کہ یہ مکمل انخلاء نہیں ہوگا۔ "ہمارا فوجی کردار تبدیل ہو رہا ہے،" انہوں نے کہا، یہ واضح کرتے ہوئے کہ امریکہ عراق میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے پرعزم ہے۔
عراقی قیادت کا موقف
عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی نے کہا ہے کہ ملک میں امریکی فوجیوں کی مزید ضرورت نہیں رہی، جو عراق کی سیکیورٹی صورتحال میں واضح بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا، "2024 کا عراق، 2014 کے عراق سے مختلف ہے۔ ہم نے جنگوں سے نکل کر استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے۔" یہ بیان عراقی حکومت کی خودمختاری کی جانب بڑھنے کی خواہش کا اظہار ہے۔
امریکی فوج کا کردار اور ماضی
2003 میں امریکی فوج نے عراق پر حملہ کیا، جس کا مقصد مبینہ ہتھیاروں کی تباہی تھا، جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ اس حملے کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور انتشار پھیل گیا، جس نے داعش جیسے انتہا پسند گروہوں کو اُبھرنے کا موقع دیا۔ 2014 میں داعش کی دوبارہ سر اٹھانے کے بعد امریکی افواج نے ایک بار پھر عراق میں اپنی موجودگی مضبوط کی تاکہ دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کیا جا سکے، لیکن اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔
خطے میں استحکام کے خدشات
امریکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب خطے میں استحکام کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ انخلاء افغانستان سے امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلاء کی طرح ہو سکتا ہے، جو ملک میں عدم استحکام کا باعث بنا۔ حالیہ مہینوں میں عراق اور شام میں امریکی فوجی تنصیبات کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
عراق کی حکومت گزشتہ نو ماہ سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر باضابطہ مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ مذاکرات عراقی حکام کی طویل عرصے سے جاری اس خواہش کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک سے غیر ملکی فوجی موجودگی کو کم کیا جائے، جسے وہ قومی خودمختاری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
نتیجہ
عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا منصوبہ ملک کے استحکام اور خود مختاری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ جیسے جیسے امریکہ اپنی فوجی توجہ کو منتقل کرتا ہے، عراقی حکومت اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، خطے کی پیچیدہ صورتحال اور انتہا پسند گروہوں کے مسلسل خطرات عراق کے آگے کے سفر میں چیلنجز پیش کرتے رہیں گے۔ عالمی برادری اس پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہی ہے، اس امید کے ساتھ کہ خطے میں امن اور استحکام کو ترجیح دی جائے گی۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔