امن کی خوش فہمی: امریکہ اور اسرائیل کے غزہ کے مستقبل کے حوالے سے متضاد نظریات
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
Loading...
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کو ختم کرنے اور لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے میں امریکی ناکامی خطے کو ہمہ گیر جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔
سفارتی ناکامیاں اور بڑھتا ہوا تصادم
مشرق وسطیٰ میں تشدد کی ایک نئی لہر نے خطے کو ایک بڑے تصادم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی سفارتی ناکامی اور اسرائیل کے لیے مسلسل حمایت نے اسرائیلی اقدامات کو لبنان کے خلاف مزید جارحانہ بنا دیا ہے، جس سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال ان واقعات کے بعد سامنے آئی ہے جن میں لبنان میں ایک دن میں تقریباً 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو حالیہ تاریخ میں لبنان کا ایک بدترین دن تصور کیا جا رہا ہے۔
سفارتی کوششیں اور غیر متوقع نتائج
لبنان پر تباہ کن اسرائیلی حملوں سے ایک ہفتہ قبل، امریکی صدر جو بائیڈن کے خصوصی ایلچی، آموس ہوچسٹین، نے خطے کا دورہ کیا تھا۔ ان کا مشن اسرائیل اور لبنان کے درمیان بڑھتی ہوئی جھڑپوں کو کم کرنا تھا، جہاں حزب اللہ اور اسرائیلی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لیکن ان کی آمد کے کچھ ہی دن بعد لبنان میں مختلف مقامات پر بارودی مواد والے کمیونیکیشن ڈیوائسز کے دھماکے ہوئے، جنہوں نے متعدد افراد کی جانیں لے لیں۔ ان واقعات کے بعد، ماہرین امریکی سفارتی کوششوں اور ان کے غیر متوقع نتائج پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو خالد الجندی کے مطابق، اسرائیلی قیادت امریکی سفارتی وارننگز کو نظر انداز کرتی ہے اور اسے کوئی نتائج بھگتنے نہیں پڑتے۔ الجندی نے اسے امریکی پالیسی کی ایک تباہ کن ناکامی قرار دیا اور کہا کہ یہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں موجودہ مسائل کا حصہ ہے۔
غزہ تنازع اور اس کے اثرات
لبنان میں جاری تصادم کا براہ راست تعلق غزہ کی جنگ سے ہے۔ باوجود اس کے کہ صدر جو بائیڈن نے ایک علاقائی جنگ کو روکنا اپنی ترجیح قرار دیا ہے، امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ یہ تنازع خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلنے کا خطرہ بڑھا رہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے اب تک 41,400 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لے لی ہیں اور اس کے رکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
حزب اللہ نے اسرائیلی فوجی اہداف پر حملے کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جواب میں، اسرائیل نے لبنان میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور لبنانی دیہات پر بمباری کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال نے غزہ میں جنگ بندی کی امریکی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے، جو کہ ان کے دائیں بازو کے اتحاد کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
امریکی حمایت اور علاقائی مضمرات
عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جیمز زوگبی نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیوں کو تقویت دے رہی ہے، جن کا مقصد امن کے بجائے نیتن یاہو کی سیاسی بقا ہے۔ زوگبی نے خبردار کیا کہ لبنان میں بڑھتا ہوا تصادم سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے اور کہا، "یہ سب انتظامیہ کے سر ہے۔"
اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی لبنان کے بارے میں پالیسیوں کے ساتھ قریبی تعلق رکھتی ہے۔ کشیدگی کو کم کرنے کی اپیلوں کے باوجود، امریکہ نے اسرائیل کے فوجی اقدامات، بشمول بیروت پر فضائی حملوں اور لبنان بھر میں کمیونیکیشن ڈیوائسز کے دھماکوں پر زیادہ تر خاموشی اختیار کی ہے یا ان کی حمایت کی ہے، جس سے عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
انسانی جانوں کا نقصان اور بین الاقوامی قانون
ان تنازعات کا انسانی نقصان نہایت تباہ کن ہے۔ اسرائیل-لبنان سرحد کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو بے گھر ہونا پڑا ہے، جو جنگ کے انسانی المیے کی ایک افسوسناک یاد دہانی ہے۔ حالیہ اسرائیلی فضائی حملے میں بیروت میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کے ساتھ درجنوں عام شہری، بشمول بچے، ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
ان واقعات پر امریکی ردعمل میں خاموشی نے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا امریکہ بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کر رہا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے ممکنہ طور پر ان قوانین کی خلاف ورزی ہیں، تاہم بائیڈن انتظامیہ نے ان واقعات کی مذمت کرنے یا کسی پر الزام لگانے سے گریز کیا ہے۔
علاقائی استحکام اور مستقبل کے امکانات
اگرچہ امریکی انتظامیہ سرکاری بیانات میں یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ایک وسیع تر جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ پینٹاگون کی جانب سے اس صورتحال کو ایک علاقائی جنگ کے طور پر نہ دیکھنا ایک متضاد حقیقت ہے، کیونکہ خطے میں مختلف محاذوں پر تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، امریکی حکام اسرائیل کی "تصادم کے ذریعے کشیدگی میں کمی" کی حکمت عملی کی حمایت کر رہے ہیں، جہاں فوجی کارروائیوں میں اضافہ لمبی مدت میں استحکام حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔
الجندی اور دیگر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالے گا تو یہ خود اس کی اپنی پالیسی کو نقصان پہنچائے گا اور خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کرے گا۔
انسانی جانوں کی اہمیت
تنازع کے دونوں اطراف ہونے والے نقصانات پر امریکی ردعمل میں واضح فرق امریکی خارجہ پالیسی کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔ زوگبی نے نشاندہی کی کہ امریکہ عرب اور اسرائیلی جانوں کی قدر میں فرق کرتا ہے، جو کہ اس خطے میں نفرت اور کشیدگی کا سبب بن رہا ہے۔
مجموعی طور پر، مشرق وسطیٰ اس وقت ایک نہایت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ امریکی سفارتی ناکامیاں، اسرائیل کی بے دریغ حمایت، اور اس کے نتیجے میں لبنان اور غزہ میں بڑھتے ہوئے اسرائیلی اقدامات نے خطے کو مزید انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جب تک پالیسیوں کا جائزہ نہیں لیا جاتا اور امن اور انسانی ہمدردی کو اہمیت نہیں دی جاتی، ایک بڑے تصادم کا خطرہ برقرار رہے گا۔
Editor
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
عراق کی حالیہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے
تہران اور ماسکو کے درمیان فوجی تعاون سے مغربی طاقتوں کو خوف کیوں؟