اہم فیصلہ: ابو غریب تشدد کے متاثرین کو 42 ملین ڈالر کی ادائیگی کا حکم
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
Loading...
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی اسرائیلی قصبوں پر حزب اللہ کے حملے کو روکنے کے لیے جنوبی لبنان پر حملہ کیا ہے۔
اسرائیلی پیشگی حملے
کشیدگی میں نمایاں اضافے کے دوران، اسرائیل نے اتوار کی صبح جنوبی لبنان پر ایک سلسلہ وار فضائی حملے کیے، اور دعویٰ کیا کہ یہ حملے حزب اللہ کے شمالی اسرائیلی قصبوں پر منصوبہ بند حملے کو روکنے کے لیے ضروری تھے۔ اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اسے حزب اللہ کی جانب سے ایک بڑے میزائل حملے کی تیاریوں کا پتہ چلا تھا، جس کے باعث یہ پیشگی حملے کیے گئے تاکہ اس متوقع خطرے کو ناکام بنایا جا سکے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے ایک "خصوصی صورتحال" کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں 48 گھنٹوں کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی، جو صبح 6 بجے مقامی وقت سے شروع ہوئی۔ یہ فیصلہ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور وسیع تر علاقائی تنازع کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، بین گوریون ایئرپورٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا اور شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیوں میں شہریوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
حزب اللہ کا جوابی ردعمل
جوابی کارروائی میں، حزب اللہ نے اعلان کیا کہ اس نے اپنی جوابی حملے کے پہلے مرحلے کو مکمل کرتے ہوئے 11 اسرائیلی فوجی اڈوں پر 320 سے زائد کاتیوشا راکٹ داغے ہیں، جن میں گولان کی پہاڑیوں کے اہم اہداف بھی شامل ہیں۔ گروپ نے بتایا کہ یہ حملہ اس کے کمانڈر فواد شکر کے جولائی کے آخر میں قتل کا براہ راست جواب ہے۔ حزب اللہ کے بیان میں زور دیا گیا کہ راکٹ فائر کا مقصد اسرائیلی علاقے میں گہرائی تک جانے والے ڈرونز کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا، جو ان کی فوجی صلاحیتوں میں ایک اسٹریٹجک اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
راکٹ فائر کی شدت نے حزب اللہ کی کارروائیوں کے پیمانے میں نمایاں اضافہ ظاہر کیا، اور اطلاعات کے مطابق گروپ نے اسرائیلی فوجی تنصیبات پر اپنے منصوبہ بند حملے کامیابی سے انجام دیے۔ جنوبی لبنانی قصبے زیبقین کے ایک رہائشی نے منظر کو قیامت کی طرح بیان کیا، جہاں دھماکوں اور طیاروں کی آوازیں غیر معمولی تھیں۔
علاقائی اثرات اور خدشات
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری فائرنگ کے تبادلے میں شدت آ گئی ہے، خاص طور پر اسرائیل کی جنگ غزہ پر شروع ہونے کے بعد سے۔ حالیہ حملوں نے ایک ممکنہ علاقائی جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر حزب اللہ اور حماس کے سینئر کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے، جبکہ دونوں فریق مکمل جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیونٹ انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک افیئرز کے ڈائریکٹر، سامی نادر نے تنازع کی نازک نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حزب اللہ اور اسرائیل جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، لیکن دونوں ہی 2006 کی تباہ کن جنگ کو دہرانا نہیں چاہتے۔ لبنان اس وقت ایک سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، جس کی وجہ سے حزب اللہ کے لیے وسیع پیمانے پر تنازع خاص طور پر ناپسندیدہ ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
امریکہ نے بڑھتے ہوئے تشدد کے دوران اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی دوبارہ حمایت کی ہے۔ امریکی سینئر حکام مسلسل اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور خطے میں صبر اور استحکام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں، لیکن صورتحال کشیدہ ہے اور اس کا کوئی واضح حل نظر نہیں آ رہا۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان حالیہ فوجی کارروائیاں پہلے سے ہی غیر مستحکم علاقے میں ایک خطرناک اضافہ ہیں۔ دونوں فریقین مزید تنازع کے لیے تیار ہیں، جبکہ بین الاقوامی برادری قریبی نظر رکھے ہوئے ہے، اور امید ہے کہ صورتحال بگڑنے سے پہلے ہی کم ہو جائے۔
Editor
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔
یمن کی مسلح افواج نے ایک "ہائی پروفائل آپریشن" میں تل ابیب کے شہر جافا کے قریب ایک فوجی اڈے کو ہائپر سونک بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔