Loading...

  • 14 Nov, 2024

یورپی یونین کی جانب سے ایران پر میزائل کی روس کو منتقلی کے الزام میں پابندیاں عائد

یورپی یونین کی جانب سے ایران پر میزائل کی روس کو منتقلی کے الزام میں پابندیاں عائد

یورپی کونسل کا اعلان: 14 افراد اور ادارے اثاثے منجمد اور سفری پابندیوں کی زد میں

پابندیوں کا جائزہ

یورپی یونین (EU) نے ایران کے خلاف سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے 14 افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں ایرانی نائب وزیر دفاع اور قومی فضائی کمپنی ایران ایئر بھی شامل ہیں۔ یہ اقدام ایران پر روس کو یوکرین کے جاری تنازعے میں استعمال ہونے والے میزائل اور ڈرون فراہم کرنے کے الزامات کے بعد کیا گیا ہے۔ یورپی کونسل نے پیر کے روز ان پابندیوں کا اعلان کیا، جس میں روس کی جنگی کارروائیوں کی حمایت کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے یورپی یونین کے عزم کو اجاگر کیا گیا۔

پابندیوں کی تفصیلات

پابندیاں ان سات افراد اور سات اداروں کو ہدف بناتی ہیں جو روس کو ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کی منتقلی میں ملوث ہیں۔ ان افراد میں ایرانی نائب وزیر دفاع سید حمزہ قلندری اور اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کی قدس فورس کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ پابندیاں تین ایرانی ایئر لائنز پر بھی عائد کی گئی ہیں، جن میں ایران ایئر بھی شامل ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ ان منتقلیوں میں سہولت فراہم کر رہی ہیں۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیئن نے پابندیوں کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ایرانی حکومت کی روس کے جارحانہ اقدامات میں حمایت ناقابل قبول ہے اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔" انہوں نے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

پابندیوں پر ردعمل

یوکرین کے وزیر خارجہ آندری سائبیہا نے یورپی یونین کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ جو ممالک جارحیت کی حمایت کرتے ہیں انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پابندیاں ایک ضروری قدم ہیں تاکہ روس کو فوجی مدد فراہم کرنے والے ممالک کو ان کے اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔

دوسری جانب ایرانی حکومت نے میزائلوں کی روس کو منتقلی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ان پابندیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ایران کی جانب سے روس کے تنازعے میں فوجی مداخلت کے دعوے بے بنیاد ہیں۔

پابندیوں کا پس منظر

یہ پابندیاں امریکی انٹیلیجنس رپورٹس کے بعد سامنے آئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران نے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے بیلسٹک میزائل فراہم کیے ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے حالیہ دنوں میں روس کو ہتھیاروں کی منتقلی کی تردید کی، لیکن انہوں نے ماضی میں ممکنہ ترسیلات کا اعتراف کیا۔

یورپی یونین کے یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب یوکرین کو فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کرنے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے تقریباً 118 بلین یورو ($129 بلین) کی معاونت کی گئی ہے۔ تاہم، ہنگری یورپی یونین کا واحد ملک ہے جو اس حمایت میں شریک نہیں ہے۔

پابندیوں کے اثرات

ان پابندیوں کا نفاذ یورپی یونین کی ایران کی مبینہ فوجی مدد کے خلاف ردعمل میں اہم اضافہ ہے۔ اہم شخصیات اور اداروں کو ہدف بنا کر، یورپی یونین اس فوجی سپلائی چین کو متاثر کرنا چاہتی ہے جو روس کی جارحیت کو مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ یہ پابندیاں مغربی ممالک کے درمیان ایران کے کردار کے خلاف بڑھتے ہوئے اتفاق کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔

بین الاقوامی برادری ان پابندیوں کے مؤثر ہونے اور ایران کے خلاف مزید اقدامات کے امکانات پر گہری نظر رکھے گی۔ یورپی یونین کی طرف سے فوجی جارحیت کی حمایت کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرانے کا عزم یوکرین کے تنازعے اور علاقائی استحکام پر اس کے وسیع اثرات کی پیچیدگی کو اجاگر کرتا ہے۔