امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
ترجمان ناصر کنعانی کا بیان: "ایران جنگ سے نہیں گھبراتا لیکن مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کا حامی ہے"
خطے میں استحکام پر ایران کا موقف
پیر کے روز ایران کی وزارت خارجہ نے ایک اہم بیان میں اعلان کیا کہ ایران حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی میں مدد کے لیے لبنان یا غزہ میں اپنی فوج نہیں بھیجے گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل خطے میں حزب اللہ اور دیگر عسکری گروپوں، بشمول یمن کے حوثیوں کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کو تیز کر رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے واضح کیا کہ ایران تنازعات سے نہیں ڈرتا، لیکن ایک محفوظ اور مستحکم مشرق وسطیٰ کو ترجیح دیتا ہے۔
کنعانی نے ایک ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں کہا، "اسلامی جمہوریہ ایران کی اضافی یا رضاکارانہ افواج کو بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔" انہوں نے لبنانی اور فلسطینی جنگجوؤں کی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف خود اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ یہ بیان ایران کی اس وسیع حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جس میں وہ خطے کے حلیف گروپوں کی حمایت کرتا ہے لیکن براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کرتا ہے۔
تنازع کی شدت اور خطے پر اثرات
ایران کے اس اعلان کا پس منظر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات ہیں، جن میں اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) نے لبنان میں بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ مقامی صحت کے حکام کے مطابق، ان حملوں کے نتیجے میں 1,000 سے زائد ہلاکتیں اور 6,000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اس تشدد نے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کے بڑے پیمانے پر انخلا کو جنم دیا ہے، جس سے انسانی بحران کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اور رپورٹس کے مطابق، گروپ کے رہنما حسن نصراللہ بھی ان حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کی اس جارحانہ حکمت عملی نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ تنازع قابو سے باہر ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ایران اور اسرائیل کے اہم حلیف، امریکہ کو بھی جنگ میں شامل کر سکتا ہے۔
کنعانی نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ حزب اللہ یا کسی اور گروپ کی طرف سے ایران سے فوجی مدد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، "ہمیں یقین ہے کہ انہیں ہماری افواج کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔" یہ بیان ایران کی اپنے حلیفوں کی غیر فوجی مدد کی پالیسی کو مزید واضح کرتا ہے۔
ایران کی جوابدہی کا عزم
فوج نہ بھیجنے کے فیصلے کے باوجود، ایران اسرائیل کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔ کنعانی نے خبردار کیا کہ اسرائیل "ایرانی عوام، فوجی اہلکاروں اور مزاحمتی افواج کے خلاف کیے گئے جرائم کے لیے بغیر سزا کے نہیں رہے گا۔" اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران براہ راست تنازع میں شامل نہ ہونے کے باوجود اپنے مفادات اور اتحادیوں کے خلاف کسی بھی خطرے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
ایرانی حکومت حزب اللہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا ثبوت صدر مسعود پزیشکیان کا تہران میں حزب اللہ کے دفتر کا دورہ ہے جہاں انہوں نے نصراللہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ دورہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان گہرے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں ایران کی حمایت کو مضبوط کرتا ہے۔
نتیجہ
جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، ایران کا لبنان میں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ ایک محتاط حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایران براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں بڑے پیمانے پر جنگ سے بچا جا سکے۔ صورتحال مسلسل بدل رہی ہے، اور بین الاقوامی برادری اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ آیا تنازع مزید شدت اختیار کرے گا اور اس کے خطے میں استحکام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔