امریکہ میں اسرائیلی حملے کے ایرانی منصوبوں پر خفیہ معلومات لیک کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
Loading...
فوجی حکام کے مطابق حملے 'محدود، مقامی اور مخصوص' ہیں اور فضائیہ و توپ خانہ کی مدد سے کیے جا رہے ہیں
حزب اللہ کے خلاف ہدف بنائے گئے حملے شروع
اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں 'ہدف بنائے گئے زمینی حملے' شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے فوجی کارروائیوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ یہ کارروائی منگل کی صبح حزب اللہ، ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپ، کے خلاف شروع کی گئی اور اس کا ہدف اسرائیل کی سرحد کے قریب موجود دیہات ہیں۔ اسرائیلی حکام نے ان حملوں کو 'محدود، مقامی اور مخصوص' قرار دیا ہے، جن میں فضائی حملے اور توپ خانہ کی مدد شامل ہے۔
یہ زمینی کارروائیاں اسرائیلی سیاسی قیادت کی منظوری سے کی گئی ہیں اور یہ حزب اللہ کے ساتھ جاری تنازعے کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ بگڑ گئی جب حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف کم شدت کے حملے شروع کیے، جو اسرائیل کی غزہ میں کی گئی فوجی کارروائی کے بعد شروع ہوئے تھے۔ غزہ میں یہ کارروائیاں حماس کی جانب سے ایک غیر معمولی حملے کے ردعمل میں کی گئی تھیں۔
سیاسی پس منظر اور فوجی حکمت عملی
اسرائیل کے سابق وزیر انصاف یوسی بیلن نے امید ظاہر کی کہ یہ کارروائیاں محدود رہیں گی۔ تل ابیب سے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ایسے فوجی آپریشنز کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ماضی میں اس علاقے میں زمینی کارروائیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ثابت ہوا ہے۔ بیلن نے حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کو کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ شمالی اسرائیلی علاقوں میں بسنے والے شہریوں کو دوبارہ امن و سکون مل سکے۔
امریکی حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل پہلے بھی حزب اللہ کے خلاف چھوٹے پیمانے پر زمینی کارروائیاں کر چکا ہے، اور اس نے اپنے شمالی سرحدی علاقوں کو سیل کر دیا تھا۔ پیر کے روز امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ سے ملاقات کی اور حزب اللہ کے حملہ آور ڈھانچے کو ختم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا کہ ان اقدامات کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ اکتوبر 7 جیسے مستقبل کے حملوں کو روکا جا سکے۔
فضائی حملے اور شہریوں پر اثرات
جب زمینی کارروائیاں شروع ہوئیں، تو بیروت کے رہائشیوں نے فضائی حملوں کی آوازیں سنیں اور جنوبی علاقوں سے دھواں اٹھتا دیکھا، جو حزب اللہ کے مضبوط علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ اسرائیل نے ان علاقوں میں موجود کئی عمارتوں سے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس دوران، اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے درمیان کسی براہ راست تصادم کی اطلاع نہیں ملی، جبکہ حزب اللہ نے 2006 کی ایک ماہ طویل جنگ کے بعد زمینی جنگ میں شرکت نہیں کی۔
اس بڑھتی ہوئی جنگی صورتحال نے ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جہاں دونوں جانب سے ہزاروں افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک اہم واقعے میں، اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان میں حزب اللہ کی قیادت کے اہم شخصیات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں گروپ کے نمایاں رہنما حسن نصراللہ کی موت واقع ہوئی۔ ان حملوں کے بعد، حزب اللہ نے اسرائیلی مقامات پر راکٹ اور میزائل داغنا جاری رکھا۔
عالمی ردعمل اور انسانی ہمدردی کے مسائل
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی فوجی منصوبوں کے بارے میں پوچھے جانے پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ انہوں نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے سفارتی حل کی اہمیت پر زور دیا تاکہ دونوں اطراف کے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اس تنازعے کے انسانی اثرات کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے، اور اطلاعات کے مطابق اب تک 100,000 سے زائد افراد لبنان سے شام کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔
لبنان کے عبوری وزیر اعظم نجیب میقاتی نے حکومت کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے نفاذ کے عزم کا اعادہ کیا ہے، جس کا مقصد حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اور خطے میں امن کی بحالی ہے۔ تنازعے کی شدت میں اضافے کے ساتھ، صورتحال غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور مزید فوجی اور شہری جانی نقصان کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
Editor
آصف ولیم رحمان کو رواں ہفتے ایف بی آئی نے کمبوڈیا سے گرفتار کیا تھا اور وہ گوام میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے۔
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔