Loading...

  • 14 Nov, 2024

ٹیکنالوجی کا میدانِ جنگ: اسرائیل کی مبینہ لبنانی ٹیلی کام نیٹ ورک ہیکنگ

ٹیکنالوجی کا میدانِ جنگ: اسرائیل کی مبینہ لبنانی ٹیلی کام نیٹ ورک ہیکنگ

اسرائیل نے متعدد لوگوں کو پیغامات اور کالز بھیجیں اور ریڈیو نیٹ ورکس کو ہیک کیا۔ ماہرین کے مطابق، اسرائیل کئی سالوں سے لبنان کے شہریوں کا ڈیٹا خاموشی سے اکٹھا کر رہا ہے۔

 تعارف

اسرائیل اور لبنان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران حالیہ واقعات نے خطے میں سائبر سیکیورٹی اور پرائیویسی کے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیل نے لبنان کے ٹیلی کام نیٹ ورکس کو ہیک کیا ہے، جس سے نہ صرف جنگ کا خدشہ بڑھا ہے بلکہ اسرائیل کی انٹیلی جنس جمع کرنے کی تکنیکی برتری بھی اجاگر ہوئی ہے۔ یہ مضمون ان واقعات، خبروں کی اہمیت، اور ان ممکنہ طریقوں کا جائزہ لیتا ہے جن کے ذریعے اسرائیل نے لبنان کے نیٹ ورکس میں دراندازی کی ہے۔

 وارننگ اور اس کے اثرات

پیر کی صبح جنوبی لبنان اور بیروت کے کچھ علاقوں کے رہائشیوں کو ایک لبنانی نمبر سے کالز اور پیغامات موصول ہوئے، جن میں انہیں حزب اللہ کے مراکز چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ان خبروں کے کچھ ہی دیر بعد بمباری شروع ہوگئی، جس کے نتیجے میں لبنان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں 270 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان حملوں نے پہلے سے ہی متاثرہ علاقوں میں 100,000 سے زیادہ افراد کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے زور دیا کہ ان خبروں کا مقصد شہری ہلاکتوں کو کم کرنا تھا، ایک ایسا بیانیہ جسے اسرائیل غزہ میں بھی استعمال کر چکا ہے۔ تاہم، حقیقت اکثر اس کے برعکس ہوتی ہے کیونکہ بہت سے بمباریوں میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

 اسرائیل کی مبینہ تکنیکی دراندازی

اسرائیلی افواج کی جانب سے وارننگز بھیجنے کی صلاحیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اسرائیل نے لبنان کے ٹیلی کام انفراسٹرکچر میں گہری دراندازی کی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کئی سالوں سے نہ صرف حزب اللہ کے ارکان بلکہ عام لبنانی شہریوں کے ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل کرنے کے قابل رہی ہے۔ یہ صلاحیت جدید جاسوسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہوئی ہے، جو افراد کی جگہ اور ان کے مواصلات کو درست طریقے سے نقشے پر ظاہر کرتی ہے۔

تنازعات اور خطرات کے تجزیہ کار ایلیاہ میگنیر کے مطابق، اسرائیل موجودہ کشیدگی سے پہلے ہی لبنانی نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جاسوس مخصوص آلات کے ساتھ شہروں سے گزر کر لبنانی شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کر سکتے ہیں، جس سے اسرائیل کو غیر معمولی اجتماعات جیسے حزب اللہ کی میٹنگز کی نشاندہی کرنے اور فوجی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ملتی ہے۔

 ماضی کے واقعات اور تکنیکی برتری

اسرائیل پر ماضی میں بھی ایسے اقدامات کا الزام لگایا گیا ہے۔ 2018 میں لبنان کے اقوام متحدہ کے نمائندے نے اسرائیل پر موبائل لائنوں کو ہیک کرنے اور لبنانی شہریوں کو دھمکی آمیز پیغامات بھیجنے کا الزام لگایا تھا۔ اسرائیل کی مشہور میلویئر جیسے کہ این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے الیکٹرانک ڈیوائسز میں دراندازی کی شہرت اس کی تکنیکی برتری کو مزید ثابت کرتی ہے۔

لبنان میں اسرائیل کے ڈیٹا جمع کرنے کے آپریشنز کی جڑیں 2007 تک جا پہنچتی ہیں، جب 2006 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے متعدد جاسوسی نیٹ ورکس کو لبنان میں متحرک کیا۔

 لبنان کی ڈیٹا پرائیویسی کی کمزوریاں

اگرچہ اسرائیل کی صلاحیتیں بہت زیادہ جدید ہیں، لیکن لبنان کے اندرونی ڈیٹا سیکیورٹی کے مسائل نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ لبنانی آئین میں پرائیویسی کے واضح تحفظات شامل نہیں ہیں اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ، لبنانی ایمبیسیوں کے ذریعے ووٹر ڈیٹا کا افشاء اور ریاستی حمایت یافتہ ہیکنگ کی مہمات ملک میں سائبر سیکیورٹی کے نظام کی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔

لبنانی میڈیا نے واٹس ایپ اکاؤنٹس میں ہیکنگ کی کوششوں میں اضافے کی بھی اطلاع دی ہے، جس سے ملک میں ڈیجیٹل سیکیورٹی کے بارے میں خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

 نتیجہ

لبنان کے ٹیلی کام نیٹ ورکس کی مبینہ ہیکنگ خطے میں سائبر سیکیورٹی کے جاری چیلنجوں کو اجاگر کرتی ہے۔ اسرائیل کے اقدامات اس کی تکنیکی برتری کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کارروائیوں کی اخلاقیات اور قانونی حیثیت پر بھی سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ جیسے جیسے کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سائبر سیکیورٹی کے اقدامات کو مضبوط کرنا اور ڈیٹا پروٹیکشن کے مضبوط نظام کو یقینی بنانا جنگ زدہ ممالک کے لیے انتہائی اہم ہو چکا ہے۔