یحيیٰ سنوار کی موت: کیا ہوا اور اس کے اثرات
اسرائیل اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ انٹیلی جنس نے سنوار کا پتہ لگایا، لیکن یہ شک و شبہات کے گھیرے میں ہے۔
Loading...
اسرائیل کا کہنا ہے کہ بیروت کے جنوبی علاقے میں کئی رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنانے والے بڑے حملے حزب اللہ کے 'مرکزی کمانڈ' کو تباہ کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
حملوں کا جائزہ
جمعہ کے روز، اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافات پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جو لبنان کے خلاف جاری جارحیت کا اب تک کا سب سے شدید حملہ تھا۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ تھا کہ یہ حملے حزب اللہ کے "مرکزی کمانڈ" کو نشانہ بنا رہے تھے، جسے انہوں نے گھنی آبادی والے علاقے ضاحیہ میں رہائشی عمارتوں کے نیچے چھپا ہوا قرار دیا۔ رپورٹس کے مطابق، درجنوں دھماکوں نے اس علاقے کو ہلا کر رکھ دیا، جبکہ حزب اللہ کے المنار ٹی وی نے ہارت حریک نامی علاقے میں کم از کم سات عمارتوں کی تباہی کی اطلاع دی ہے۔ بتایا گیا کہ 15 سے زیادہ میزائل اس علاقے میں گرے، جس سے کئی آگ لگ گئیں اور شہری دفاع کی ٹیموں کو شدید زخمیوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات کی اپیل کرنی پڑی۔
حملوں کا پس منظر
یہ حملے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ہوئے، جس میں حزب اللہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ شہری علاقوں کو اپنی عسکری کارروائیوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی حکام نے اپنے اقدامات کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے جان بوجھ کر اپنے ہیڈ کوارٹر کو رہائشی علاقوں میں رکھا ہوا ہے، جس سے شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ الجزیرہ کے نامہ نگار علی ہاشم نے مقامی آبادی کی حالت زار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضاحیہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے بہت سے لوگ بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے باعث علاقے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ علاقہ 2006 کی اسرائیل-حزب اللہ جنگ کے دوران بھی شدید بمباری کا شکار ہو چکا ہے۔
شہریوں پر اثرات اور ہلاکتیں
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 76 زخمی ہوئے، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ضاحیہ کی گھنی آبادی کی وجہ سے شہریوں کی حفاظت کے بارے میں شدید خدشات ہیں، اور بہت سے خاندان علاقے سے نکلنے کا سوچ رہے ہیں، لیکن لبنان کے دیگر علاقوں میں بھی حملے جاری رہنے کے باعث ان کے پاس محدود مواقع ہیں۔ ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ بورج البراجنہ کے رہائشی نے صورتحال کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا کہ حملے نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا، جس کی وجہ سے لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر فرار ہونے لگے۔
اسرائیلی موقف اور مستقبل کی کارروائیاں
اسرائیلی فوجی حکام نے ان حملوں کو "عین مطابق" قرار دیا، اور کہا کہ ان کا مقصد حزب اللہ کی جنگی صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ بھی اس وقت ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے، تاہم حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نصراللہ ایک محفوظ مقام پر تھے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ نے مزید حملوں کی طرف اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ "ابھی مزید کام باقی ہے۔"
عالمی ردعمل اور جنگ بندی کی بات چیت
حملوں کے وقت نے خاص طور پر توجہ حاصل کی، کیونکہ جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری تھی۔ امریکی پینٹاگون کی ترجمان سبرینا سنگھ نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے ان حملوں سے پہلے امریکہ کو مطلع نہیں کیا، تاہم حملے کے دوران گیلنٹ نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے بات چیت کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "جب تک حزب اللہ جنگ کا راستہ اختیار کرتی ہے، اسرائیل کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔" دوسری جانب، لبنان کے وزیر اعظم نجیب میکاتی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی امن کی اپیلوں کو نظرانداز کرنے کا ثبوت ہے۔
نتیجہ
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان حالیہ کشیدگی نے لبنان میں شدید تباہی اور شہریوں کی ہلاکتوں کا سبب بنا ہے۔ صورتحال اب بھی سنگین ہے، اور عالمی برادری اس تنازعے کے حل کے لیے پرامید ہے، جس میں شہریوں کی حفاظت کو ترجیح دی جائے۔
Editor
اسرائیل اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ انٹیلی جنس نے سنوار کا پتہ لگایا، لیکن یہ شک و شبہات کے گھیرے میں ہے۔
رتن ٹاٹا، جو بدھ کو انتقال کر گئے، اپنی عاجزی اور وسیع بصیرت کے لیے جانے جاتے تھے۔
مشرق وسطیٰ کے اس ملک کے زیادہ تر شہری حزب اللہ کے ساتھ تنازعے کے فوجی حل کے حامی ہیں، اور کچھ تو "لبنان کے جنوب کو دوبارہ آباد کرنے" کی امید بھی رکھتے ہیں۔