شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
ایرانی سپریم لیڈر نے اسرائیلی حملوں کے بعد پہلے محتاط انداز اپنایا تھا، مگر اب انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
انتقامی کارروائی کا اعلان
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل اور امریکہ کو سخت الفاظ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کیا گیا تو "شدید جواب" دیا جائے گا۔ یہ بیان انہوں نے ہفتے کے روز دیا، جو تہران میں 1979 میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی برسی کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس واقعے کو ایران اور امریکہ کے درمیان طویل مدت سے جاری دشمنی کی بنیاد مانا جاتا ہے۔
تہران میں طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ "دشمنوں" یعنی "صہیونی ریاست" اور امریکہ کو ایران اور اس کے اتحادی گروپوں کے خلاف کارروائیوں کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایران کب اور کیسے جواب دے گا، لیکن ان کے الفاظ نے دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام دیا۔
کشیدگی کی وجہ
خامنہ ای کے بیان کی پس منظر میں 26 اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے فوجی ٹھکانوں پر حملے شامل ہیں۔ یہ حملے 1 اکتوبر کو ایران کے میزائل حملے کے جواب میں کیے گئے تھے جس میں تقریباً 200 میزائل اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے تھے۔ ایرانی میزائل حملے کا مقصد اسرائیل کی اُن کارروائیوں کا رد عمل تھا جن میں حزب اللہ، حماس اور ایرانی فوج کے اہم رہنما مارے گئے تھے۔
اس سے قبل خامنہ ای نے محتاط انداز اپناتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی حکام اسرائیلی حملے کے جواب پر غور کریں گے، اور یہ کہ اس مسئلے کو "نہ تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانا چاہیے اور نہ ہی معمولی سمجھا جانا چاہیے"، جس سے ان کے محتاط رویے کا اشارہ ملتا تھا۔
کشیدگی میں اضافے کا خطرہ
خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اسرائیل اور ایران کے مابین مزید تصادم کا خطرہ بڑھا رہی ہے، جب کہ اسرائیل کے فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہالیوی نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے مزید میزائل حملے کیے تو اسرائیل کا رد عمل فیصلہ کن ہوگا۔ اسرائیل نے ممکنہ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی مکمل کر رکھی ہے۔
اس کشیدہ صورت حال میں امریکہ کی فوجی موجودگی خطے میں موجود ہے اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے مزید فوجی وسائل اور میزائل دفاعی نظام تعینات کرنے کے احکامات دیے ہیں تاکہ ممکنہ ایرانی جارحیت سے نمٹا جا سکے۔ آسٹن نے واضح کیا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات اور عملے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
ایران میں متضاد رد عمل
آیت اللہ خامنہ ای کے سخت بیان پر جہاں طلبا کا ہجوم ان کے حق میں نعرے بازی کرتا رہا، وہیں ایرانی قیادت کے لیے فیصلہ سازی کا عمل پیچیدہ ہے۔ ایران کے سامنے ایک جانب اپنی فوجی طاقت اور عزم کو دکھانے کی خواہش ہے، تو دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ ایرانی قیادت کو اس وقت کسی بھی ممکنہ جواب کے نتائج کا محتاط انداز میں جائزہ لینا ہوگا تاکہ خطے میں بڑے پیمانے پر جنگ کے خطرے سے بچا جا سکے۔
اختتامیہ
خامنہ ای کی یہ وارننگ ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو اجاگر کرتی ہے اور خطے میں مزید فوجی تصادم کے امکانات پیدا کر رہی ہے۔ جب کہ دونوں فریق ممکنہ جنگی حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں، بین الاقوامی برادری بھی اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کہیں کوئی غلط قدم خطے میں مزید انتشار کا باعث نہ بن جائے۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔