شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
ایسا لگتا ہے کہ حسینہ کی رخصتی نے ڈھاکہ میں شدید کشیدگی کو کم کر دیا ہے، جہاں پیر کو مزید ہلاکت خیز مظاہروں کا خدشہ تھا۔
شیخ حسینہ کا استعفیٰ اور روانگی
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کئی ہفتوں کے مہلک احتجاج کے بعد استعفیٰ دے دیا اور ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ حسینہ کی روانگی پیر کے روز ہوئی، جس سے مزید خونریزی کا خطرہ ٹل گیا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک کا کنٹرول کون سنبھالے گا۔ حسینہ کی روانگی سے ڈھاکہ میں شدید کشیدگی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، جہاں پیر کے روز مزید مہلک احتجاج کا خوف تھا۔ استعفیٰ ان احتجاجات کے بعد آیا جن میں 300 افراد ہلاک ہوئے اور حکام نے انہیں کچلنے کی کوشش کی۔ اتوار کی رات کے پرتشدد واقعات میں تقریباً 100 افراد ہلاک ہوئے اور کرفیو نافذ کیا گیا۔ حسینہ نے پیر کے روز ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر روانگی اختیار کی، جبکہ بڑے ہجوم نے قومی کرفیو کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈھاکہ میں ان کے محل پر دھاوا بولا۔
عوامی ردعمل اور جشن
پیر کے روز فوجی دستے سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، تاہم مظاہرین نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور ڈھاکہ کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ بڑے ہجوم نے وزیر اعظم کے محل پر دھاوا بول دیا، جس سے حسینہ اپنی تقریر نہیں کر سکیں۔ دوپہر تک، جب وزیر اعظم کی روانگی کی خبر پھیلی، تو سڑکوں پر جشن کا ماحول بن گیا۔ مظاہرین نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر خوشی منائی، جب کہ خبریں آئیں کہ حسینہ کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے منتقل کیا گیا ہے۔ مظاہرین کا پیغام تھا کہ جو بھی اگلا حکمران بنے گا، وہ جان لے گا کہ وہ کسی بھی قسم کی آمریت یا بدانتظامی کو برداشت نہیں کریں گے اور طلباء فیصلہ کریں گے۔
فوج اور عبوری حکومت
آرمی چیف جنرل واکر الزمان نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ اب ایک عبوری حکومت بنگلہ دیش کو چلائے گی اور امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ یو این کے خصوصی رپورٹر آئرین خان کے مطابق فوج کے سامنے ایک "بہت مشکل کام" ہے۔ آرمی چیف نے شہریوں سے فوج پر اعتماد رکھنے کی اپیل کی، انہوں نے کہا کہ فوج ملک میں امن بحال کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ احتجاج کے دوران ہونے والی ہر موت اور جرم کا انصاف کیا جائے گا۔ جنرل نے مزید کہا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے دعوت قبول کر لی ہے اور عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
پس منظر اور تناظر
ملک میں احتجاج کا آغاز ایک ماہ قبل حکومت کی متنازعہ نوکری کوٹہ سکیم پر ہوا تھا۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کو بند کر دیا اور مظاہرین پر قابو پانے کے لئے پولیس اور فوج کا استعمال کیا۔ حسینہ نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا اور فون اور انٹرنیٹ کی رسائی منقطع کر دی۔ احتجاج جاری رہا اور ملک کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ دیا کہ متنازعہ کوٹہ کو 30 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کیا جائے، جس میں 3 فیصد جنگی تجربہ کاروں کے رشتہ داروں کے لئے مختص کیا جائے۔ تاہم، مظاہروں کی تحریک حسینہ کے استعفے اور احتجاج میں ہلاک ہونے والوں کے لئے انصاف کے مطالبے میں تبدیل ہو گئی۔
غیر یقینی صورتحال اور امن کی امید
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال کا سایہ ہے کیونکہ ملک نے اپنے تاریخ کے سب سے مہلک دنوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں کیں، حسینہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہ منتقلی پرامن ہوگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حساب لیا جائے گا۔ پچھلی حکومت نے ملک کو مایوسی میں دھکیل دیا تھا اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے بہت محنت درکار ہوگی، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج انسانی حقوق کا احترام کرے۔
خلاصہ یہ کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ اور وسیع پیمانے پر احتجاج کے درمیان ملک چھوڑنے کے بعد ایک عبوری حکومت قائم کی گئی ہے، جس سے پرامن منتقلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
نوٹ:فراہم کردہ معلومات تازہ ترین دستیاب رپورٹس پر مبنی ہیں اور صورتحال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہو سکتی ہیں۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔