شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
عملے کے ایک سو سے زائد افراد نے خط میں رپورٹنگ پر اعتراضات اٹھائے
ایک تازہ تنازعہ بی بی سی میں سامنے آیا ہے، جہاں سو سے زائد ملازمین نے غزہ کے تنازعہ کی کوریج میں اسرائیل کے حق میں جھکاؤ کا الزام عائد کیا ہے۔ "دی انڈیپینڈنٹ" کے مطابق، یہ الزامات بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی کو بھیجے گئے ایک خط میں کیے گئے ہیں، جس کی عوامی حمایت برطانوی سیاستدان سیعدہ وارثی سمیت کئی اہم شخصیات نے بھی کی ہے۔
عملے کا عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار
انڈیپینڈنٹ کے مطابق، ایک سو ایک گمنام ملازمین نے اس خط پر دستخط کیے ہیں۔ اس خط میں بی بی سی پر الزام لگایا گیا کہ وہ "منصفانہ اور درست" کوریج فراہم نہیں کر رہا، اور کہا کہ بی بی سی کو اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے "بغیر کسی خوف یا حمایت کے" رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ عملے نے زور دیا کہ رپورٹنگ میں دیانت داری، درستگی، اور غیر جانبداری کے اعلیٰ معیارات کو برقرار رکھنا بی بی سی کا فرض ہے۔
اس خط میں عملے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیلی-فلسطینی تنازعے کی کوریج میں سیاق و سباق کو شامل کیا جانا چاہیے اور اس بات کی وضاحت کی جانی چاہیے کہ اسرائیل نے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کی جانب سے وضاحت کی کمی کو یک طرفہ رپورٹنگ کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
عملے کے اندر اعتماد کی کمی
ایک گمنام ملازم، جس نے خط پر دستخط کیے، نے کہا کہ "عملے کے اندر اعتماد کی سطح" غیر معمولی حد تک کم ہو چکی ہے۔ اس بات کی عکاسی ان لوگوں نے بھی کی ہے جو حالیہ مہینوں میں بی بی سی چھوڑ چکے ہیں اور انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کی کوریج میں بی بی سی کی دیانت داری پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک اور دستخط کنندہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بی بی سی دنیا بھر میں اپنے ناظرین کے اعتماد کو کھو رہا ہے اور کچھ ہیڈ لائنز پر اعتراض کیا جو مبینہ طور پر اسرائیل کے اقدامات کی طرف سے توجہ ہٹاتی ہیں۔
بی بی سی کا تعصب کے الزامات کی سختی سے انکار
بی بی سی کے ترجمان نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ "بہت بلند معیارات" پر قائم ہے اور اپنے ناظرین کو "سب سے زیادہ قابل اعتماد اور غیر جانبدار خبروں" کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بی بی سی اپنے ادارتی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہے اور صحافتی دیانت داری کے عزم پر قائم ہے۔
ماضی میں بھی بی بی سی پر تعصب کے الزامات عائد کیے گئے
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی بی سی پر جانبداری کے الزامات عائد کیے گئے ہوں۔ ستمبر میں "دی ٹیلی گراف" نے بی بی سی میں "گہری تشویش ناک جانبداری" کے شواہد کا ذکر کیا تھا، جس میں ادارے کی مختلف پلیٹ فارمز، بشمول ٹی وی، ریڈیو، پوڈکاسٹ، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پر اسرائیل مخالف تعصب کا الزام لگایا گیا تھا، خاص طور پر حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد۔
بی بی سی نے ان تحقیقات کو چیلنج کیا
بی بی سی نے "دی ٹیلی گراف" کے اس تجزیے کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحقیق میں استعمال کیے گئے AI ٹولز مشکوک ہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح بی بی سی نے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ تنازعہ کی پیچیدگیوں کے باوجود متوازن کوریج فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نتیجہ
غزہ کی صورتحال بدستور کشیدہ ہے، اور بی بی سی میں اندرونی سطح پر اٹھائے گئے یہ الزامات ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا عالمی سطح پر میڈیا ادارے اپنے اصولوں پر قائم رہ کر غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کر سکتے ہیں یا نہیں۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔