روس کا یوکرینی حملوں کے جواب میں ہائپرسونک میزائل حملہ
مغربی ساختہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کے ردعمل میں روسی اقدام
Loading...
اسرائیلی حملوں میں شدت آنے کے بعد لبنان کے شہری حزب اللہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازع کے باعث مزید تشدد کے لیے تیار ہیں۔
بیروت، لبنان – ایک بحران زدہ کمیونٹی
اسرائیلی بمباری کے سامنے لبنانی شہری سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔ جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ کی رہائشی ام حسن نے اس تنازع کے دوران اپنے تجربات بیان کیے۔ شروع میں اپنے گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن حزب اللہ کی ہدایت پر انہیں اپنے خاندان کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ ام حسن کے مطابق، یہ فیصلہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا، جسے وہ "صیہونی ریاست" کے خلاف مزاحمت قرار دیتی ہیں۔
انسانی المیے کا آغاز
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے آغاز سے جنوبی لبنان میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 700 سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد لبنان میں ہونے والی کل ہلاکتوں کا تقریباً نصف حصہ بنتی ہے، جو اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد 8 اکتوبر سے حزب اللہ کے ساتھ دوبارہ شروع ہونے والے تنازع کا نتیجہ ہے۔ حزب اللہ کے زیر کنٹرول علاقوں کے لبنانی شہریوں کو بھی غزہ جیسے حالات کا خوف ہے، جہاں 41,000 سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
عالمی ردعمل اور سیاسی تناؤ
امریکہ اور فرانس کی قیادت میں 21 روزہ جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کسی بھی قسم کی جنگ بندی کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کی حکومت کو غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے، لیکن وہ اپنے فوجی مقاصد پر قائم ہیں۔ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حالیہ بیان میں اقوام متحدہ پر سامیت دشمنی کا الزام لگایا، جس سے بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی قیادت کا موقف ہے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے گی جب تک کہ اس کے مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔
حزب اللہ کو اُکسانے کی حکمت عملی
کارنیگی مشرق وسطیٰ سینٹر کے ماہر مائیکل ینگ کے مطابق، اسرائیل کی حکمت عملی حزب اللہ کو بڑے پیمانے پر تنازع میں دھکیلنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ اسرائیلی فوج کی توجہ حزب اللہ کے زیر قبضہ شیعہ آبادی والے علاقوں پر ہے، تاکہ حزب اللہ کو زیادہ شدید جوابی حملہ کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ تاہم، حزب اللہ نے تاحال اپنے حملے فوجی اہداف تک محدود رکھے ہیں، تاکہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے، جس سے اسرائیل کو مزید جوابی کارروائی کا جواز نہ مل سکے۔ حزب اللہ کی یہ محتاط حکمت عملی لبنان کے مزید بگاڑ سے بچنے کی کوشش ہے۔
بے دخلی اور سماجی مسائل
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 90,000 سے زائد لبنانی شہری بے گھر ہو چکے ہیں، جنہوں نے شمالی قصبوں اور شہروں میں پناہ لی ہے۔ اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے رہائشی مکانات کی مانگ بڑھا دی ہے، اور بیروت میں کرایہ داروں کے استحصال کی خبریں سامنے آئی ہیں، جہاں مکان مالکان نے کرایوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ بیروت کا رہائشی حسن، جو اپنے بے گھر رشتہ داروں کو پناہ دے رہا ہے، مالی مشکلات کا ذکر کرتا ہے، کیونکہ کرایے دگنے ہو چکے ہیں۔
مختلف لبنانی کمیونٹیوں کے درمیان کشیدگی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں بے گھر افراد کو قبول کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے، کیونکہ لوگوں کو حزب اللہ کے ہمدردوں کی موجودگی کا خوف ہے۔ طرابلس جیسے شہر میں، جہاں اکثریتی آبادی سنی ہے، وہاں رہائشیوں نے حزب اللہ کی علامتیں دکھانے والے نئے آنے والوں کے ساتھ تنازع کیا، جو دیرینہ دشمنیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
وسیع تر جنگ کا خطرہ
حزب اللہ کے مضبوط گڑھ بعلبک اور بقاع وادی کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے مزید تشدد کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ بیروت میں ایک دکاندار علی اپنے خاندان کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہے جو اسرائیلی حملوں سے متاثرہ علاقوں میں مقیم ہیں۔ باوجود اس کے کہ خطرات بڑھ رہے ہیں، علی جیسے کئی لوگوں کے والدین اپنی زمین کو چھوڑنے کے بجائے وہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ وہ عزت کو بے دخلی پر فوقیت دیتے ہیں۔
تنازع کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ برقرار ہے، خاص طور پر اگر جنگ بندی کی سفارتی کوششیں ناکام ہو جائیں۔ جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھ رہی ہے، لبنانی شہریوں کی مزاحمت اور عزم کا امتحان جاری ہے، جو بیرونی جارحیت اور اندرونی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
Editor
مغربی ساختہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کے ردعمل میں روسی اقدام
صدر آئزک ہرزوگ: "انصاف کا نظام حماس کے جرائم کے لیے ڈھال بن گیا ہے"
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔