امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
حماس کی جانب سے اسرائیلی فوج کے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بدھ کے روز جنوبی غزہ میں ان کے رہنما کو ہلاک کر دیا گیا۔
واقعے کا پس منظر
بدھ، 16 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ کے جنوبی حصے میں ایک کارروائی کے دوران حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے جمعرات کو اس دعوے کی تصدیق کی، تاہم حماس کی جانب سے سنوار کی موت کے بارے میں تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے بتایا کہ سنوار کو رفح میں تین دیگر جنگجوؤں کے ساتھ ایک ہدفی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ رفح غزہ کے جنوبی علاقے کا ایک شہر ہے جو طویل عرصے سے تنازعات کا مرکز رہا ہے۔
یاد رہے کہ یحییٰ سنوار کو حال ہی میں حماس کے سیاسی بیورو کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اسماعیل ہنیہ اس عہدے پر فائز تھے، جنہیں جولائی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سنوار کی قیادت میں حماس کی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں، خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے تنازعے میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیلی ردعمل
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے یحییٰ سنوار کی ہلاکت کو اسرائیل کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہم نے حماس کے رہنما کے ساتھ اپنا حساب چکا لیا ہے۔" نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "اگرچہ یہ ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔" انہوں نے زور دیا کہ "روشنی تاریکی پر غالب آ رہی ہے۔"
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے اس کارروائی کو ایک "فوجی اور اخلاقی کامیابی" قرار دیا جبکہ نیشنل یونٹی پارٹی کے چیئرمین بینی گینٹز نے فوج کو اس کامیابی پر مبارکباد دی۔ گینٹز نے اس کامیابی کو حماس کے خلاف اسرائیل کی وسیع تر کوششوں کے تناظر میں اہم قرار دیا اور مغویوں کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا۔
اسرائیلی مغویوں کے خاندانوں کا ردعمل
اسرائیل میں یرغمال اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے فورم نے یحییٰ سنوار کی ہلاکت کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے حماس کے زیر قبضہ مغویوں کی رہائی میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اسرائیلی حکام پر زور دیا کہ وہ اس موقعے کو یرغمالیوں کی واپسی کے لیے استعمال کریں۔
عالمی ردعمل
امریکہ
امریکی صدر جو بائیڈن نے یحییٰ سنوار کی موت کو اسرائیلیوں کے لیے ایک "سکون کا لمحہ" قرار دیا اور اسے غزہ کے لیے ایک ممکنہ تبدیلی کا اشارہ کہا۔ انہوں نے کہا کہ سنوار امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا اور انہوں نے اسرائیلی رہنماؤں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ مغویوں کی واپسی اور تنازعے کے خاتمے پر بات چیت کی جا سکے۔
امریکی نائب صدر کمالا ہیرس نے بائیڈن کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ "انصاف ہو چکا ہے" اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی امید کا اظہار کیا۔ انہوں نے سنوار کو اکتوبر 7 کے حملوں کے دوران معصوم لوگوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
یورپی نقطہ نظر
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے سنوار کو "ظالم قاتل اور دہشت گرد" قرار دیتے ہوئے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اکتوبر 7 کے حملوں کے دوران لیے گئے تمام مغویوں کو رہا کرے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور سنوار کو حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا مرکزی کردار قرار دیا۔
نیٹو کے سربراہ مارک رُٹے نے کہا کہ اگر یحییٰ سنوار کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو انہیں اس کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔
برطانیہ
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے کہا کہ وہ سنوار کی موت پر افسوس نہیں کریں گے اور ان کی قیادت کو جاری تنازعے اور اس سے پیدا ہونے والے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
نتیجہ
یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی خبر پر مختلف حلقوں سے مختلف ردعمل سامنے آیا ہے جو اسرائیل-فلسطین تنازعے کی پیچیدگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں اسرائیلی حکام اس پیش رفت کو ایک بڑی حکمت عملی کی کامیابی کے طور پر منا رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی رہنما انسانی ہمدردی کے پہلوؤں اور مغویوں کی فوری رہائی پر زور دے رہے ہیں۔
Editor
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔