امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ لبنان سے کوئی حملہ وسطی اسرائیل تک پہنچا کیونکہ سرحد پار سے دشمنی جاری ہے۔
سرحد پار جھڑپوں میں نمایاں اضافہ
حزب اللہ نے ایک بیلسٹک میزائل تل ابیب کے قریب واقع موساد کے ہیڈکوارٹر پر داغا ہے، جو اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ مسلح تنظیم کے درمیان جاری تصادم میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ بدھ 25 ستمبر 2024 کو پیش آیا اور اسرائیلی فوج کے مطابق، یہ پہلا موقع ہے جب لبنان سے داغا گیا کوئی میزائل اسرائیل کے مرکزی علاقوں تک پہنچا ہے۔
حملہ اور اس کے مضمرات
حزب اللہ نے تصدیق کی کہ 'قادر 1' نامی میزائل صبح 6:30 بجے کے قریب فائر کیا گیا۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ حملے کا ہدف وہ مقام تھا جہاں سے حالیہ حملوں کے لیے جدید کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، جیسے پیجرز اور وائرلیس آلات کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ حزب اللہ نے بیان میں کہا کہ یہ حملہ غزہ کے عوام سے اظہار یکجہتی اور لبنان کے دفاع میں کیا گیا ہے۔
میزائل جیسے ہی اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہوا، تل ابیب میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں، تاہم اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے میزائل کو کامیابی سے روک لیا، جس کے نتیجے میں کوئی نقصان یا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیلی فوج نے رپورٹ کیا کہ اس واقعے کے بعد مرکزی اسرائیل میں شہری دفاع کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، جس سے اسرائیلی دفاعی نظام پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔
جاری تنازع اور علاقائی کشیدگی
یہ میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل لبنان میں وسیع پیمانے پر بمباری کر رہا ہے، جس میں اب تک 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے میزائل لانچ کے جواب میں اس مقام کو نشانہ بنایا جہاں سے یہ میزائل فائر کیا گیا تھا، جس سے دونوں جانب سے حملوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا۔
حزب اللہ نے ماضی میں بھی اسرائیلی انٹیلی جنس کے مراکز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن یہ پہلا بیلسٹک میزائل حملہ ہے جس کی تصدیق ہوئی ہے، خاص طور پر غزہ کی جنگ کے بعد دوبارہ شروع ہونے والی جھڑپوں کے دوران۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ میزائل حملہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی علاقے میں گہرائی تک مار کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ ہے۔
وسیع تر علاقائی پس منظر
اس تصادم میں مشرق وسطیٰ کی دیگر ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں بھی شامل ہو رہی ہیں، جس سے خطے میں وسیع تر جنگ کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے رپورٹ کیا کہ حزب اللہ نے گولان کی پہاڑیوں اور ماؤنٹ کرمل کے قریب بھی حملے کیے ہیں، جس سے ان کی کارروائیوں میں ایک اسٹریٹیجک تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام مسلسل راکٹ اور ڈرون حملے روکنے میں مصروف ہیں، جس سے خطے میں جاری غیر یقینی کی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔
لبنان کے شہر مرجعیون سے رپورٹر نے اطلاع دی کہ تل ابیب پر داغے جانے والا میزائل غالباً حزب اللہ کی بیلسٹک میزائل صلاحیتوں کا اظہار تھا۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا تو اسرائیلی دفاعی نظام ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔
تصادم کا انسانی پہلو
اس جاری تنازع کا انسانی اثرات نہایت سنگین ہیں۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق، پیر کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 558 افراد ہلاک ہوئے، جو 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد لبنان کا ایک بدترین دن تھا۔ جیسے جیسے صورتحال بگڑ رہی ہے، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان مکمل جنگ کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے، جس سے پورے خطے میں استحکام کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
آخر کار، حزب اللہ کی جانب سے موساد کے ہیڈکوارٹر پر کیا گیا میزائل حملہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مزید تنازع کے امکان کی ایک واضح علامت ہے۔ جب کہ دونوں جانب سے فوجی کارروائیاں جاری ہیں، عالمی برادری گہری نظر سے حالات کو دیکھ رہی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اس تشدد کا کوئی حل نکل سکے جس نے پہلے ہی بے شمار جانیں لے لی ہیں۔
Editor
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔