Loading...

  • 28 Nov, 2024

حزب اللہ کی "خیبر آپریشنز": اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے والے درست حملے

حزب اللہ کی "خیبر آپریشنز": اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے والے درست حملے

منگل کو ایک بیان میں، جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد، حزب اللہ کے آپریشنز روم نے انکشاف کیا کہ تل ابیب میں اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر میجر جنرل ٹومر بار کی نجی رہائش گاہ کو 18 نومبر 2024 کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر کے گھر پر حملہ  

منگل کو جنگ بندی کے اعلان کے بعد، حزب اللہ کے آپریشن روم نے انکشاف کیا کہ 18 نومبر 2024 کو تل ابیب میں اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر میجر جنرل ٹومر بار کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا۔  


اسٹریٹجک اہداف پر حملے  

یکم اکتوبر 2024 کو شروع کیے گئے حزب اللہ کے "خیبر آپریشنز" نے اسرائیل کے اہم فوجی اور سیاسی مراکز پر درست حملے کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کیا۔ دو ماہ میں حزب اللہ نے 56 آپریشنز کیے، جن میں ڈرون اور میزائل حملے شامل تھے۔ ان حملوں نے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے اندر اہم فوجی اڈوں، فضائیہ کے مراکز، اور اعلیٰ حکام کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا۔  

18 نومبر کو میجر جنرل ٹومر بار کی رہائش گاہ پر حملہ حزب اللہ کے اہم آپریشنز میں شامل تھا، جس میں جدید ڈرون استعمال کیے گئے۔ اسرائیلی حکومت نے اس خبر کو دبانے کی کوشش کی، لیکن یہ حملہ حزب اللہ کی اسرائیلی دفاعی لائنوں میں دراندازی کی صلاحیت کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح 19 اکتوبر کو حزب اللہ نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیصریہ میں واقع رہائش گاہ کو نشانہ بنایا، جس میں جائیداد کو کافی نقصان پہنچا۔  


جوابی حملے اور کشیدگی میں اضافہ
 
ان حملوں کے جواب میں، اسرائیل نے بیروت کے جنوبی علاقوں پر شدید فضائی حملے کیے، جس سے عام شہریوں کی بڑی تعداد میں جانیں ضائع ہوئیں۔ جواباً حزب اللہ نے مزید درست حملے کیے، جیسے کہ 13 اکتوبر کو گولانی بریگیڈ کے کمانڈ سینٹر پر حملہ، جس میں درجنوں فوجی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔  

حزب اللہ نے ان حملوں کو اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان میں جارحیت، خاص طور پر ان کے رہنما سید حسن نصراللہ کی ستمبر میں شہادت کے جواب میں جائز قرار دیا۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے اسٹریٹجک فوجی مراکز جیسے گولان ہائٹس کے تنصوبار بیس اور تل ابیب کے قریب یونٹ 8200 کے سائبر انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ بنایا۔  


مربوط اور مسلسل دباؤ  

خیبر آپریشنز نے خطے کی طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ حزب اللہ نے روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کے فوجی مراکز جیسے "ایلیاکم" بیس، تل ابیب میں "ہاکیریہ" بیس، اور "پالمچیم" ایئر بیس پر حملے کیے۔ ان حملوں نے اسرائیلی فضائی دفاع کو چکما دیتے ہوئے فوجی آپریشنز کو درہم برہم کر دیا۔  

نومبر کے وسط تک، حزب اللہ نے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے 145 کلومیٹر اندر تک حملے کیے۔ ان حملوں سے نہ صرف اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا بلکہ وہاں کے شہریوں میں خوف و ہراس بھی پیدا ہوا۔ دو ملین سے زائد افراد کو پناہ گاہوں میں منتقل ہونا پڑا، اسکول اور کاروبار بند ہو گئے، اور فضائی ٹریفک متاثر ہوئی۔  


سیاسی اور اسٹریٹجک اثرات
 
خیبر آپریشنز نے اسرائیل کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کیا۔ ان حملوں نے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھایا، جس کے بعد امریکہ اور فرانس نے جنگ بندی کے لیے ثالثی کی۔  

ماہرین کے مطابق، حزب اللہ کی حکمت عملی نے جنگ کے میدان میں اس کی برتری کو واضح کیا۔ اہم اہداف پر حملوں اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف "بدلے کے حملوں" نے حزب اللہ کی آپریشنل مہارت کو نمایاں کیا۔  


نتیجہ
 
حزب اللہ کے خیبر آپریشنز اسرائیل-لبنان تنازعہ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ ان حملوں نے اسرائیل کو اپنی سیکیورٹی حکمت عملی پر نظر ثانی پر مجبور کیا۔ جنگ بندی کا معاہدہ حزب اللہ کی مزاحمتی حکمت عملی کی کامیابی اور خطے میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔