Loading...

  • 16 Oct, 2024

قیادت کے نقصان کے باوجود حزب اللہ کی ثابت قدمی

قیادت کے نقصان کے باوجود حزب اللہ کی ثابت قدمی

شیخ نعیم قاسم کا اعلان: قیادت کی شہادت کے باوجود حزب اللہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے

شیخ نعیم قاسم کا پُرعزم پیغام

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی حالیہ شہادت کے بعد، حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے ایک پبلک بیان میں گروپ کی فوجی تیاری کا بھرپور اظہار کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قیادت کے اس بڑے نقصان کے باوجود، حزب اللہ اسرائیل کی ممکنہ زمینی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ اپنے آپریشنز جاری رکھے گی اور لبنان کو اسرائیلی جارحیت سے محفوظ رکھے گی۔

فوجی صلاحیت برقرار

پیر کے روز ایک عوامی خطاب میں، شیخ نعیم قاسم نے یقین دلایا کہ اسرائیل حزب اللہ کی فوجی طاقت کو کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لبنان میں جاری بمباری کے باوجود، حزب اللہ کے آپریشنز ناصرف مستقل طور پر جاری ہیں بلکہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ان میں مزید شدت آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی نیا قائد داخلی طریقہ کار کے ذریعے منتخب کیا جائے گا، تاہم اس انتخاب کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

شیخ قاسم نے اپنے خطاب میں کہا، "ہم پوری طرح تیار ہیں، اگر اسرائیل زمینی حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مزاحمتی فورسز تیار ہیں۔" انہوں نے حزب اللہ کو لبنان کے دفاع کا پکا عزم رکھنے والا گروہ قرار دیا جو اسرائیل کی جانب سے شہریوں کے خلاف تشدد کو ناکام بنائے گا۔

اسرائیلی کاروائیوں کی مذمت

شیخ نعیم قاسم نے اسرائیل کی شدید مذمت کی اور اسے لبنان بھر میں شہریوں کے خلاف ظلم کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو بے گناہ شہریوں، بچوں اور بوڑھوں پر حملہ قرار دیا۔ "اسرائیل شہریوں، ایمبولینسوں کو نشانہ بناتا ہے... یہ جنگجوؤں سے نہیں لڑتا بلکہ قتل عام کرتا ہے،" انہوں نے کہا، اور اس انسانی تباہی پر گہرے خدشات کا اظہار کیا۔

شیخ قاسم نے امریکہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ فوجی اور مالی تعاون کے ذریعے اس کی شراکت دار ہے۔ انہوں نے حزب اللہ کی ماضی کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گروپ 2006 کی جنگ کے دوران بھی اسرائیل کے خلاف کامیاب رہا تھا۔

حامیوں کے لیے تسلی کا پیغام

بیروت سے رپورٹنگ کرنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شیخ قاسم کا پیغام لبنان کی شیعہ آبادی کو تسلی دینے کے لیے تھا، جو نصر اللہ کی شہادت کے بعد خود کو غیر محفوظ محسوس کر سکتے ہیں۔ ان کے بیانات کا مقصد یہ تھا کہ حزب اللہ ایک طاقتور فوجی قوت ہے جو اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔

تاہم، گروپ کو اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کئی سینئر کمانڈروں کے نقصان کے بعد مشکلات کا سامنا ہے۔ حزب اللہ کے پاس موجود طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو کس طرح مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے، یہ ایک اہم سوال ہے، خاص طور پر اسرائیل جیسے طاقتور فوجی حریف کے خلاف۔

تنازع کی شدت میں اضافہ

حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں لبنان میں صرف دو ہفتوں کے دوران 1,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو تنازع میں زبردست شدت کی علامت ہے۔ اسرائیل نے اپنی توجہ غزہ سے ہٹا کر شمالی سرحد کی طرف مرکوز کی ہے اور تقریباً روزانہ حزب اللہ کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کا مقصد شمالی علاقوں میں اپنے شہریوں کی واپسی کو یقینی بنانا ہے، لیکن اس کے جارحانہ اقدامات سے مکمل جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

پیر کو اسرائیل نے پہلی بار بیروت کے وسطی علاقوں کو نشانہ بنایا، جو تنازع میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور مزید فوجی محاذ آرائی کا سبب بن سکتا ہے۔

ایران کی پوزیشن اور لبنان کا ردعمل

حزب اللہ کو ایران کی مسلسل حمایت حاصل ہے، جس نے وسیع علاقائی تنازع کے امکان پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بیان دیا کہ فی الحال لبنان یا غزہ میں اضافی فورسز بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مقامی لڑاکے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔

لبنان کے نگراں وزیر اعظم نجیب میقاتی نے اس بڑھتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر فوری جنگ بندی کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے لبنانی فوج کو جنوبی علاقوں میں تعینات کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔