اہم فیصلہ: ابو غریب تشدد کے متاثرین کو 42 ملین ڈالر کی ادائیگی کا حکم
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
Loading...
تہران کا کہنا ہے کہ اس کے سیٹلائٹ لانچز شہری مقاصد کے لیے ہیں، جبکہ مغربی ممالک نے اس ٹیکنالوجی کے بیلسٹک میزائلوں میں استعمال ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
لانچ کی تفصیلات
ایران نے اپنے خلائی پروگرام میں ایک اہم پیشرفت کی ہے جس میں چمران-1 تحقیقی سیٹلائٹ کو کامیابی سے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ لانچ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے، اور مغرب نے ایران کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ممکنہ فوجی استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا نے ہفتے کے روز بتایا کہ 60 کلوگرام وزنی چمران-1 سیٹلائٹ کامیابی سے مدار میں پہنچا دیا گیا ہے۔ اس سیٹلائٹ کا بنیادی مقصد ہارڈویئر اور سافٹ ویئر سسٹمز کی جانچ کرنا ہے جو مدار میں حرکت کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ لانچ "قائم-100" کیریئر راکٹ کے ذریعے کیا گیا، جو ایران کا پہلا تین مراحل پر مشتمل، سالڈ فیول سیٹلائٹ لانچر ہے۔ اس راکٹ کو جنوری میں 500 کلومیٹر سے زیادہ کی بلندی پر سیٹلائٹ بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔
لانچ کے بعد چمران-1 کی پہلی سگنلز موصول ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں، جو ایران کے خلائی منصوبوں کی کامیابی کی علامت ہے۔
مغربی ممالک کے خدشات اور ایران کا موقف
اگرچہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کے سیٹلائٹ لانچز مکمل طور پر شہری مقاصد کے لیے ہیں، لیکن مغربی حکومتیں شک کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لانچز میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو بیلسٹک میزائلوں، خاص طور پر جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے خلائی پروگرام کا مقصد پرامن اور دفاعی نوعیت کے کام ہیں۔
یہ لانچ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس کو یوکرین کے تنازع میں استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائل فراہم کر رہا ہے۔ ایران نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا فوجی تعاون کسی کشیدگی کو بڑھانے کے لیے نہیں ہے۔
خلائی شعبے میں ترقیات
ایران اپنے خلائی پروگرام میں مسلسل ترقی کر رہا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کی سرگرمیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہیں۔ تاہم، ایران کو کئی چیلنجز کا سامنا بھی رہا ہے، جن میں ماضی میں سیٹلائٹ لانچز کی ناکامیاں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، اس سال کے شروع میں ایرانی میڈیا نے سوریا سیٹلائٹ کو 750 کلومیٹر کے مدار میں کامیابی سے لانچ کرنے کی اطلاع دی تھی، جو ملک کے لیے ایک اہم کامیابی تھی۔
فروری میں روس نے بھی ایک ایرانی ریموٹ سینسنگ اور امیجنگ سیٹلائٹ لانچ کیا تھا، جس پر امریکہ کی جانب سے سخت تنقید کی گئی، جس سے ایران کی بین الاقوامی تعلقات مزید پیچیدہ ہو گئے۔
پابندیوں کا اثر
ایران کا خلائی پروگرام کئی سالوں سے مغربی پابندیوں کے تحت مشکلات کا شکار رہا ہے، خاص طور پر 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد۔ ان پابندیوں نے ایران کی معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو متاثر کیا ہے، لیکن ایران اپنے سیٹلائٹ اور میزائل پروگرامز کو آگے بڑھانے کے عزم پر قائم ہے اور انہیں اپنے قومی دفاع اور تکنیکی خود مختاری کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
نتیجہ
چمران-1 سیٹلائٹ کی لانچنگ ایران کے خلائی پروگرام میں پیش رفت کی عکاسی کرتی ہے، جس کے باوجود بین الاقوامی پابندیوں اور مغربی نگرانی کے، ایران اپنی خلائی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کی سرگرمیاں پرامن ہیں، لیکن مغربی ممالک اس ٹیکنالوجی کے دوہری استعمال کے خدشات رکھتے ہیں، جو خطے اور عالمی سلامتی کے لیے اہم سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ جیسے جیسے ایران اپنے خلائی پروگرام کو آگے بڑھاتا ہے، اس کے علاقائی اور عالمی سلامتی پر اثرات ایک اہم موضوع بنے رہیں گے۔
Editor
دفاعی ٹھیکیدار CACI، جس کے ملازمین ابو غریب میں کام کرتے تھے، کو 15 سال کی قانونی تاخیر کے بعد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاض میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں مسلم اور عرب رہنماؤں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور غزہ کی پٹی اور لبنان میں اپنی مہلک دشمنی فوری طور پر بند کرے۔
یمن کی مسلح افواج نے ایک "ہائی پروفائل آپریشن" میں تل ابیب کے شہر جافا کے قریب ایک فوجی اڈے کو ہائپر سونک بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔