Loading...

  • 25 Nov, 2024

ایران نے ایٹمی پیشرفت کے نئے منصوبے پیش کر دیے

ایران نے ایٹمی پیشرفت کے نئے منصوبے پیش کر دیے

آئی اے ای اے کی تنقید کے جواب میں تہران کا اقدام

تہران کی ایٹمی توسیع کی نئی حکمت عملی  

ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی تنقیدی قرارداد کے جواب میں اپنی ایٹمی ترقی کے دو نئے سنٹری فیوجز متعارف کرائے ہیں۔ ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے اس اعلان کے دوران کہا کہ یہ پیشرفت تہران کی اپنی ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، باوجود اس کے کہ ایران کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔  

آئی اے ای اے کی قرارداد اور بین الاقوامی تنازع  

ایران کی یہ پیشرفت آئی اے ای اے کی ایک قرارداد کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جو گزشتہ جمعرات کو گورنرز بورڈ کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اگرچہ اس قرارداد کی چین، روس، اور برکینا فاسو نے مخالفت کی، لیکن 19 ووٹوں کے ساتھ یہ قرارداد منظور ہوئی، جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ وینزویلا نے اس عمل میں شمولیت نہیں کی۔  

قرارداد سے قبل، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ امریکہ نے بھی اس پر "شدید تشویش" کا اظہار کیا۔  

ایران کا جواب:قومی خودمختاری کا دفاع  

ایران نے آئی اے ای اے کی اس قرارداد کو "سیاسی طور پر غیر حقیقی اور تخریبی رویے" کا نتیجہ قرار دیا۔ اسپیکر قالیباف نے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کی ایٹمی ترقی کو اپنے غیر قانونی اقدامات کا جواز بنا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ایسی قراردادیں آئی اے ای اے کی ساکھ اور غیر جانبداری کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ایران اور ایجنسی کے درمیان تعمیری تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔  
قالیباف نے کہا کہ مغربی ممالک کے سیاسی فیصلے دیگر ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے آئی اے ای اے کے پروٹوکول سے باہر اقدامات کریں۔  

سفارتی اختلافات اور سیاسی الزامات  

ایران کے آئی اے ای اے میں نمائندے محسن نظیری اصل نے بھی قرارداد کو "سیاسی مقاصد پر مبنی" قرار دیا۔ ایران کا دیرینہ مؤقف یہی ہے کہ اس کی یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں پُرامن مقاصد کے لیے ہیں، جبکہ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ یہ سرگرمیاں ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔  
2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جس کے بدلے ایران پر سے پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ تاہم، 2018 میں امریکہ کی معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران نے اپنی افزودگی کی صلاحیت کو بڑھانا شروع کیا۔ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کے مطابق، ایران ہتھیار بنانے کی دہلیز کے قریب پہنچ چکا ہے، جو عالمی سطح پر تشویش پیدا کر رہا ہے۔  

آگے کا راستہ: مذاکرات کی اہمیت  

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے حالیہ ملاقات کے دوران خبردار کیا کہ اگر ایران مخالف قرارداد منظور کی گئی تو اس کا جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران 2015 کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن نئے معاہدے کی بنیاد باہمی مفادات پر ہونی چاہیے۔  

ایران کی ایٹمی پیشرفت کے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ یہ تنازع سفارتکاری، سلامتی، اور قومی خودمختاری کے درمیان پیچیدہ تعلقات کو اجاگر کرتا ہے۔ ان حالات میں، مستقبل کے مذاکرات کی سمت اور نتیجہ غیر یقینی ہے۔