Loading...

  • 07 Nov, 2024

ایران کا اسرائیل کے خلاف ممکنہ ردعمل: مشرق وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال

ایران کا اسرائیل کے خلاف ممکنہ ردعمل: مشرق وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال

تہران کی جانب سے اسرائیلی حملوں کا فوجی جواب دینے کا اعلان

کشیدگی میں اضافہ: مشرق وسطیٰ میں صورتحال خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ایران کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں کا جواب دیا جائے گا۔

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

مشرق وسطیٰ کی صورتحال ایک خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ تہران کے حکام نے عندیہ دیا ہے کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں کے جواب میں ایران جلد ہی جوابی کارروائی کرے گا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، ایران کی یہ جوابی کارروائی آنے والے دنوں میں ہو سکتی ہے، ممکنہ طور پر 5 نومبر 2024 کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل۔

یہ کشیدگی اس سال کے دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری حملوں کے سلسلے کا نتیجہ ہے۔ حالیہ اسرائیلی حملے ایک ردعمل کے طور پر کیے گئے ہیں جس میں ایران نے اکتوبر کے اوائل میں اسرائیل پر میزائل داغے تھے، جو ایران اور حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے تھے۔ دونوں ممالک کی جانب سے مسلسل فوجی کارروائیوں کے باعث حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔

ایران کا 'فیصلہ کن اور تکلیف دہ' جواب دینے کا اعلان

سی این این کے مطابق، ایران کی عسکری حکمت عملی کے ایک سینئر ذریعہ نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا جواب اسرائیل کی 'جارحیت' کے لیے نہایت فیصلہ کن اور تکلیف دہ ہوگا۔ اگرچہ ذرائع نے حملے کے وقت کا تعین نہیں کیا، تاہم اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ یہ امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے ممکن ہے، جس سے امریکہ کی خارجہ پالیسی اور انتخابات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔

ایرانی عسکری قیادت نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ ایرانی انقلابی گارڈز (IRGC) کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایک 'ناقابلِ تصور جواب' دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح، آئی آر جی سی کے نائب کمانڈر علی فدوی نے کہا ہے کہ ایران کا جوابی حملہ 'ناگزیر' ہے اور ایران نے گزشتہ 40 سالوں سے حملوں کا جواب دیا ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینئر مشیر محمد محمدی گولپائگانی نے بھی اسرائیل کو 'سخت اور افسوسناک' جواب دینے کا انتباہ دیا ہے۔

وقت کے بارے میں مختلف آراء

کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایران کا ردعمل فوری ہو سکتا ہے، جبکہ کچھ ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ ایران یہ اقدام امریکی انتخابات کے بعد تک موخر کرے تاکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کو غیر ارادی طور پر تقویت نہ ملے۔ یہ اختلافات علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتے ہیں جنہیں ایران کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

خامنہ ای نے اسرائیل کے حملے کے نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ جوابی کارروائی ضروری ہے۔ اس بات کا فیصلہ اس بڑھتے ہوئے تصادم کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں دونوں ممالک ایسی راہ پر گامزن ہیں جو خطے کے لیے نہایت سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔

تشدد کا وسیع تر پس منظر

موجودہ کشیدگی اس وسیع تر تنازع کا حصہ ہے جس میں اسرائیل نے گزشتہ سال اکتوبر میں غزہ پر فوجی کارروائیاں شروع کیں، جس کا جواب حماس نے دیا۔ اس تنازع میں دونوں طرف بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں 43,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حماس کے حملے میں تقریباً 1,100 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔

حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان غلطی کی صورت میں وسیع پیمانے پر علاقائی تنازعہ کا خدشہ موجود ہے۔ بین الاقوامی برادری اس تنازع کو قریب سے دیکھ رہی ہے کیوں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان فوجی تصادم کی صورت میں مشرق وسطیٰ کی پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

نتیجہ: آنے والے دن اور کشیدگی کا امکان

اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران کی ممکنہ فوجی کارروائی کے پیش نظر دنیا بھر کی نظریں مشرق وسطیٰ پر مرکوز ہیں۔ آنے والے دن اس تنازع کے رخ اور خطے میں استحکام پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔