Loading...

  • 16 Oct, 2024

اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران کی تیاری: جامع جوابی حکمت عملی

اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران کی تیاری: جامع جوابی حکمت عملی

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج نے اسرائیلی حکومت کے ممکنہ حملوں کے جواب میں ایک مکمل تیار حکمت عملی تیار کی ہے جسے جارحیت کی صورت میں "فیصلہ کن" طریقے سے نافذ کیا جائے گا، ایک معتبر ذرائع کے مطابق۔

ایران کی فوجی تیاری

حال ہی میں ایران کی مسلح افواج کے ایک باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ اسلامی جمہوریہ نے اسرائیل کی ممکنہ جارحیت کے جواب میں ایک جامع منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ اس بیان سے ایران کی اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اسرائیل سے درپیش خطرات کے جواب میں پوری طرح تیار ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ یہ منصوبہ "مکمل طور پر تیار" ہے اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں بلا تاخیر نافذ کیا جائے گا۔

اہداف کی حکمت عملی

ایرانی فوج نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں مختلف اہداف کا ڈیٹا تیار کر رکھا ہے۔ ایران کا ردعمل اسرائیلی حملے کی نوعیت پر منحصر ہوگا۔ ذرائع کے مطابق، "صہیونیوں کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کے جواب کے لیے منصوبہ مکمل طور پر تیار ہے،" جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایران کسی بھی حملے کی صورت میں فوری اور مؤثر طریقے سے کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ فوجی حکمت عملی میں مختلف قسم کے جوابی حملے شامل ہیں، جو موقع کی مناسبت سے استعمال کیے جائیں گے۔

آپریشن ٹرو پرومس II

حال ہی میں ایران نے آپریشن "ٹرو پرومس II" کے دوران اپنی تیاری کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس آپریشن میں ایران نے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی اور انٹیلیجنس بیسز پر 200 میزائل داغے۔ یہ کارروائی ایران کی جانب سے اپنی قوم اور علاقائی اتحادیوں پر کیے گئے اسرائیلی حملوں کا براہ راست جواب تھی۔ ذرائع نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ آپریشن اس بات کا ثبوت ہے کہ "ہم جس جگہ کو نشانہ بنانا چاہیں، اسے تباہ کر سکتے ہیں۔" اس سے ایران کے نہ صرف تیار ہونے بلکہ ضرورت پڑنے پر بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کی صلاحیت کو مزید تقویت ملی۔

حالیہ جارحیت کا پس منظر

اس فوجی تیاری کے پس منظر میں اسرائیل کی جانب سے متعدد جارحانہ کارروائیاں شامل ہیں جن کے نتیجے میں ایران کے اتحادیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ خاص طور پر حالیہ حملوں میں اہم شخصیات جیسے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ، اور ایران کی اسلامی انقلاب گارڈز کور (IRGC) کے سینئر کمانڈر عباس نیلفروشاں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان واقعات نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے اور ایران کے جوابی ردعمل کی قوت کو مضبوط کیا ہے۔

تاریخی تناظر

ایران کی یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ یہ پہلے کے آپریشنز کی پیروی ہے۔ اپریل میں ایران نے ایک مشابہ کارروائی کی تھی جس میں اسرائیلی اہداف پر 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرونز داغے گئے تھے، یہ حملہ شام میں ایرانی سفارتی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کا جواب تھا۔ یہ تاریخی تناظر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران ہمیشہ اپنے مفادات کے دفاع میں فوری اور مؤثر ردعمل دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔

اسرائیلی ردعمل اور علاقائی مضمرات

ان حالات کے پیش نظر، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا "حق اور فرض" حاصل ہے۔ یہ بیان دونوں ممالک کے درمیان جارحیت اور جوابی کارروائی کے مسلسل چکر کی عکاسی کرتا ہے جس کے خطے میں استحکام کے لیے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔ تہران نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ کی کسی بھی جارحیت کا جواب "کئی گنا زیادہ شدت" سے دیا جائے گا اور اس میں اسرائیلی انفراسٹرکچر کے ہر پہلو کو نشانہ بنایا جائے گا۔

نتیجہ

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی تیاری اور حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایران کسی بھی جارحیت کی صورت میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ صورتحال تاحال غیر یقینی ہے، اور دونوں فریقین ممکنہ تصادم کے لیے تیار ہیں، جو خطے کے لیے دور رس نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایران کی جوابی حکمت عملی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی اقدامات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور اپنی خودمختاری اور مفادات کے دفاع کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔