شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
حزب اللہ کمانڈر پر اسرائیل کا نشانہ
منگل کے روز اسرائیل نے بیروت پر فضائی حملہ کیا جس میں کم از کم تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ حزب اللہ کے کمانڈر محسن شکر کو نشانہ بنا کر کیا گیا، جو مبینہ طور پر اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر پہلے پیش آئے ایک واقعے کا جواب تھا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
حملے اور اس کے اثرات
یہ دھماکہ بیروت کے جنوبی مضافات، خاص طور پر حریت حریک کے علاقے میں حزب اللہ کی شورہ کونسل کے قریب ہوا۔ اس گنجان آباد علاقے کو شدید نقصان پہنچا، جہاں نصف سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو گئیں اور قریب ہی واقع ایک ہسپتال کو معمولی نقصان پہنچا۔ حملے کے بعد گلیوں میں ملبہ اور ٹوٹا ہوا شیشہ بکھرا ہوا نظر آیا، جبکہ ہنگامی خدمات نے امداد فراہم کرنے کے لیے جلدی کی۔
جانی نقصان اور ردعمل
لبنان کی وزارت صحت نے تین ہلاکتوں کی تصدیق کی، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، اور 74 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ وزارت ملبے کے درمیان لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف ہے۔ محسن شکر کو نشانہ بنانے کی ابتدائی اطلاعات کے باوجود، حزب اللہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ حملے میں زندہ بچ گئے ہیں۔
حملے کے پس منظر
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ یہ حملہ محسن شکر کے مبینہ طور پر گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کے جواب میں کیا گیا تھا، جس میں جانی نقصان ہوا تھا۔ تاہم، حزب اللہ نے اس واقعے میں کسی بھی ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اسرائیل نے بیروت کو نشانہ بنایا ہو، اس سے پہلے بھی 2006 اور رواں سال کے شروع میں حملے کیے گئے تھے۔
آئندہ کے نتائج اور بین الاقوامی ردعمل
اس حملے کے بعد مزید کشیدگی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل نے سول ڈیفنس کے لیے نئی ہدایات جاری نہیں کی ہیں، مگر صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ اسرائیلی اور لبنانی دونوں نقطہ نظر سے مسلح تصادم سے بچنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارین جین پیئر کی نمائندگی میں امریکہ نے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک مکمل جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی حل کی تلاش کا عزم ظاہر کیا ہے۔
خلاصہ میں، بیروت میں حالیہ فضائی حملے نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اس حملے، جانی نقصان اور بین الاقوامی ردعمل نے خطے کی استحکام اور سفارتی کوششوں پر اس واقعے کے ممکنہ اثرات کو اجاگر کیا ہے۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔