آئی سی سی کے نیٹین یاہو کے وارنٹ گرفتاری پر اسرائیل کا سخت ردعمل
صدر آئزک ہرزوگ: "انصاف کا نظام حماس کے جرائم کے لیے ڈھال بن گیا ہے"
Loading...
اکتوبر 7 کے بعد اسرائیل میں پہلی قومی ہڑتال اور احتجاجات وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے لئے تازہ چیلنج ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ آگے کیا کرتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں اور فوجی حکمت عملی پر قوم کا اختلاف
اسرائیل میں حالیہ دنوں میں عوامی بےچینی میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ملک گیر احتجاجات اور ایک اہم مزدور ہڑتال نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے لئے ایک نازک لمحہ بنایا ہے۔ یہ بےچینی اس وقت مزید بڑھ گئی جب غزہ میں چھ قیدیوں کی لاشیں ملی، جنہیں حماس نے 7 اکتوبر کے حملوں کے دوران پکڑ لیا تھا۔ نیتن یاہو کی حکومت پر سیزفائر نہ کرنے اور قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کرنے میں ناکامی پر شدید تنقید ہو رہی ہے، اور مظاہرین حکومت کے جنگی حالات کے انتظام کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
عوامی غصہ اور حکومتی جوابدہی
قیدیوں کی لاشوں کی دریافت نے اسرائیل بھر میں غصے کی لہر پیدا کر دی ہے، جہاں تقریباً 300,000 شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے نیتن یاہو کی حکومت پر غزہ میں سیزفائر نہ کرانے پر تنقید کی، جہاں جاری فوجی کارروائیوں کے دوران 40,700 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ سینئر حماس اہلکار عزت الرشق نے دعویٰ کیا کہ قیدی اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے، جبکہ نیتن یاہو نے حماس کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس دوران حماس نے اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کو روکنے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں قیدیوں کو چھوڑنے کی تجویز دی۔
معاشی جمود اور مزدور یونین کا ردعمل
ایک جرات مندانہ اقدام کے طور پر، اسرائیل کی مرکزی مزدور یونین نے ہڑتال کی، جس کے نتیجے میں ملک گیر اقتصادی سرگرمیاں کئی گھنٹوں کے لئے معطل ہو گئیں، جب تک کہ ایک لیبر کورٹ نے کام پر واپس آنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ کارروائی، اکتوبر 7 کے حملوں کے بعد پہلی بار، نیتن یاہو کی قیادت سے بڑھتی ہوئی ملکی ناراضگی کو اجاگر کرتی ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ احتجاجات اور ہڑتالیں پائیدار سیاسی اثرات مرتب کریں گی۔
جنگ کی پیچیدگی اور سیاسی نتائج
حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کی جانب سے 7 اکتوبر کو ایک غیر متوقع حملے کے بعد تنازعہ بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور تقریباً 240 کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں جاری ہیں، بین الاقوامی عدالت انصاف نسل کشی کے الزامات کا جائزہ لے رہی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع یوآو گالانٹ کے ساتھ ساتھ دو حماس رہنماؤں کے لئے گرفتاری کے وارنٹ تلاش کر رہی ہے۔
داخلی تنقید اور سیاسی بقا
نیتن یاہو کی جنگی کارروائیوں کو مذاکرات پر ترجیح دینے کی حکمت عملی کو اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر چھ قیدیوں کی لاشوں کی دریافت کے بعد۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت اب دفاعی حالت میں ہے، اور عوامی مطالبہ ایک نئے رویے کی ضرورت ہے۔
قیادت کا چیلنج اور مستقبل کے امکانات
نیتن یاہو کی مقبولیت میں کمی کے باوجود، وہ اب بھی اپنے حریف بینی گینٹز سے آگے ہیں۔ ان کا اتحاد دائیں بازو کے وزراء کے ساتھ، جیسے ایتمار بن غاویر اور بتسلئیل سموٹریچ، ایک دو دھاری تلوار ثابت ہوا ہے۔ بن غاویر نے غزہ میں بستیوں کی توسیع کی تجویز دی ہے، جو نیتن یاہو کی حکمت عملی کے مطابق ہے لیکن تنازعات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
ایک تبدیلی کے دہانے پر قوم
نیتن یاہو اس مشکل وقت سے گزرتے ہوئے، سیاسی منظر نامہ مزید غیر مستحکم دکھائی دیتا ہے۔ وزیر دفاع گالانٹ اور حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپڈ نے اختلافات کا اظہار شروع کر دیا ہے، جو ممکنہ طور پر سیاسی ہوا کا رخ بدل سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی جبلت یہی ہوگی کہ وہ اپنی موجودہ حکمت عملیوں پر قائم رہیں گے، لیکن داخلی دباؤ اور عوامی تبدیلی کی مانگ ممکنہ طور پر اسرائیل کی مستقبل کی سیاسی سمت کا تعین کر سکتی ہے۔
Editor
صدر آئزک ہرزوگ: "انصاف کا نظام حماس کے جرائم کے لیے ڈھال بن گیا ہے"
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید