Loading...

  • 21 Nov, 2024

غزہ میں یرغمالیوں کی ہلاکتوں کے بعد اسرائیل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے

غزہ میں یرغمالیوں کی ہلاکتوں کے بعد اسرائیل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے

اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین نے پیر کو عام ہڑتال کی کال کے طور پر مشتعل مظاہرین نے جنگ بندی کے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔

عوامی غم و غصہ اور مظاہرے

اتوار کی رات کو ہزاروں اسرائیلی عوام نے غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرے اس وقت ہوئے جب غزہ میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کی المناک خبر سامنے آئی۔ تقریباً 11 ماہ قبل غزہ کے تنازع کے آغاز کے بعد سے یہ حکومت مخالف سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک تھے۔ مظاہرین نے "ابھی! ابھی!" کے نعرے لگائے اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔

مظاہروں کے دوران شدید بے چینی دیکھی گئی، مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ کئی مظاہرین نے تل ابیب کی اہم سڑکیں بلاک کر دیں اور مغربی یروشلم میں نیتن یاہو کے دفتر کے باہر جمع ہو کر حکومت کے یرغمالیوں کے مسئلے سے نمٹنے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے فورم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے نیتن یاہو کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا، اور دعویٰ کیا کہ یرغمالیوں کو تقریباً ایک سال کی بھوک اور تشدد کے بعد "قتل" کیا گیا۔

یونین کا ردعمل اور ہڑتال کی کال

عوامی غم و غصے کے بڑھنے کے بعد، اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی یونین فیڈریشن، ہستادرٹ نے پیر کے روز سے عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہڑتال، جو 7 اکتوبر کے بعد پہلی بار ہو رہی ہے، حکومت پر جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ہستادرٹ کے سربراہ آرنون بار ڈیوڈ نے صورتحال کی نزاکت پر زور دیتے ہوئے کہا، "معاہدہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں معاہدے کے بجائے لاشیں مل رہی ہیں۔" توقع ہے کہ یہ ہڑتال معیشت کے بڑے شعبوں، بشمول بینکنگ، صحت اور نقل و حمل کو متاثر کرے گی، جبکہ بن گوریان ایئرپورٹ پیر کی صبح 8 بجے (05:00 جی ایم ٹی) سے بند ہو جائے گا۔

ہڑتال کی کال کو مختلف شعبوں، بشمول ہائی ٹیک انڈسٹری کے صنعتکاروں اور کاروباری افراد کی حمایت حاصل ہو رہی ہے، جو حکومت کی جانب سے یرغمالیوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے میں ناکامی پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ رون ٹومر نے حکومت کو یرغمالیوں کو گھر لانے کے "اخلاقی فرض" کی ادائیگی میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ ان کی واپسی کے بغیر ملک نہ تو اقتصادی طور پر صحت یاب ہو سکتا ہے اور نہ ہی بحال ہو سکتا ہے۔

سیاسی کشیدگی اور اقدامات کے مطالبات

اسرائیل کا سیاسی منظرنامہ تناؤ کا شکار ہے کیونکہ حزب اختلاف کے رہنماؤں، بشمول سابق وزیر اعظم یائیر لاپڈ نے ہڑتال اور مظاہرین کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تاہم، وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے ہڑتال کو روکنے کی کوشش کی ہے، اور دلیل دی ہے کہ اس کے قانونی بنیادیں نہیں ہیں اور جنگ کے دوران غیر ضروری اقتصادی نقصان ہو سکتا ہے۔

صورتحال سنگین ہے، اور اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب بھی کم از کم 101 یرغمالی لاپتہ ہیں، جن میں سے 35 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قید کے دوران مر چکے ہیں۔ فوج نے باقی قیدیوں کی بازیابی کے چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ایک مذاکراتی معاہدہ ہی ان کی واپسی کو ممکن بنا سکتا ہے۔

نتیجہ

جیسے جیسے مظاہرے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں، اسرائیلی عوام کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی محفوظ واپسی کا مطالبہ ایک نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر مظاہروں اور عام ہڑتال کے امتزاج نے اس تنازع سے نمٹنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال دیا ہے۔ آنے والے دن یہ طے کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا اور باقی قیدیوں کا کیا بنے گا۔