امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
غصہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ ہزاروں اسرائیلی حکومت کی ناکامی پر احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں قید افراد کو رہا نہیں کر سکی۔
ہزاروں افراد کا نیتن یاہو کی حکومت سے کارروائی کا مطالبہ
تقریباً 750,000 اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے، جو کہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک ہے۔ مظاہرین وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں حماس کے قبضے میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ کریں۔ حالیہ عوامی احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے جنوبی غزہ کے ایک سرنگ سے چھ یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی ہیں، جس سے خاندانوں اور وسیع تر کمیونٹی پر جذباتی بوجھ میں اضافہ ہوا۔
احتجاج کا پس منظر
یہ احتجاج 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے تباہ کن حملے کے بعد شروع ہوا جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جس میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے، اسرائیلی فوج نے غزہ میں وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں، جس کے نتیجے میں 40,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔ اس وقت، 100 سے زیادہ یرغمالی لاپتہ ہیں، اور اسرائیلی فوج کا اندازہ ہے کہ ان میں سے تقریباً ایک تہائی قید کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کی حکومت پر غصے کا اظہار کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ ایسا کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ان کے پیاروں کی رہائی کو ممکن بنا سکے۔ حالیہ چھ لاشوں کی برآمدگی نے ان کی بے چینی اور مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ریکارڈ شرکت اور جاری مطالبات
احتجاج کے منتظمین نے بتایا کہ تل ابیب میں 500,000 افراد نے ریلی نکالی، جبکہ دیگر شہروں میں 250,000 افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ بہت سے مظاہرین نے اس وقت تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جب تک کہ حکومت ان کے مطالبات کا جواب نہ دے۔ الجزیرہ کے نامہ نگار، حمدہ سلوحوت کے مطابق، مظاہرین نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں، جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فوجی کارروائی ہی یرغمالیوں کی رہائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
تل ابیب میں ایک ریلی کے دوران، سابق یرغمالی ڈینیئل آلونی نے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو کی بے عملی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا، "یہ کیسی معافی ہے اگر آپ اپنے طریقے بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے؟" انہوں نے ان لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی جو اپنے رہنماؤں سے خود کو نظر انداز محسوس کر رہے ہیں۔
عوامی جذبات میں تبدیلی
یہ مظاہرے اسرائیلیوں میں اس بات کا بڑھتا ہوا احساس ظاہر کرتے ہیں کہ یرغمالیوں کے بحران کے حل کے لیے ایک مستقل جنگ بندی ہی واحد ممکنہ حل ہو سکتا ہے۔ نیو اسرائیل فنڈ کی پبلک انگیجمنٹ کے نائب صدر، لیبی لنکنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ پچھلے سال کے آخر سے جنگ بندی کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بہت سے لوگ اب سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے ضروری ہے۔
آرمڈ کانفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ (ACLED) کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل بھر میں ماہانہ اوسطاً 113 احتجاج ہو چکے ہیں، جو اس مسئلے پر عوامی دلچسپی کی مسلسل شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔
حکومت کا جواب
بڑھتے ہوئے دباؤ کے جواب میں، ہسٹادرٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن نے ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے، جس سے حکومت کی یرغمالیوں کے بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر عوامی عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ہڑتال معیشت کے مختلف شعبوں کو متاثر کرے گی، جس سے صورتحال کی سنگینی مزید اجاگر ہو گی۔
جیسا کہ مظاہرے جاری ہیں، اسرائیلی عوام اس بات پر منقسم ہیں کہ بہترین اقدام کیا ہو۔ کچھ فوجی دباؤ کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ دیگر یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی حل کی بڑھتی ہوئی حمایت کر رہے ہیں۔ آنے والے دن اہم ہوں گے کیونکہ حکومت عوام کے بے مثال دباؤ کا سامنا کر رہی ہے اور جاری بحران سے نمٹنے میں جوابدہی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
BMM - MBA
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔