آئی سی سی کے نیٹین یاہو کے وارنٹ گرفتاری پر اسرائیل کا سخت ردعمل
صدر آئزک ہرزوگ: "انصاف کا نظام حماس کے جرائم کے لیے ڈھال بن گیا ہے"
Loading...
مغربی ساختہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کے ردعمل میں روسی اقدام
میزائل حملے کا پس منظر
یوکرین کے ساتھ جاری تنازعے میں شدت آتے ہوئے روس نے اپنے جدید ترین ہائپرسونک بیلسٹک میزائل 'اوڑیشینک' یا 'ہیزل' کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا کہ یہ میزائل یوکرین کے شہر دنیپروپیٹرووسک میں ایک فوجی صنعتی تنصیب پر داغا گیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب یوکرین نے مغربی ممالک سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے روسی علاقوں کو نشانہ بنایا۔
حملے کی وجوہات اور صدر پوتن کا بیان
صدر پوتن نے اس حملے کو "جنگی تجربہ" قرار دیا اور کہا کہ یہ روس کی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین نے امریکی ساختہ ایٹاکمز (ATACMS) اور ہیمارس (HIMARS) سسٹمز کے ساتھ ساتھ برطانوی اسٹارم شیڈو میزائلوں کا استعمال کرکے روسی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق یہ حملے ایسے علاقوں پر کیے گئے جو بین الاقوامی طور پر روس کا تسلیم شدہ حصہ ہیں، جس سے تنازع مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
پوتن نے کہا کہ مستقبل میں ‘اوڑیشینک’ نظام کے استعمال کے بارے میں عوام کو مطلع کیا جائے گا تاکہ شہریوں کو خطرناک علاقوں سے نکلنے کا موقع دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اعلانات میزائل حملوں کی تاثیر پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گے کیونکہ یہ میزائل 2.5 سے 3 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں، جو موجودہ فضائی دفاعی نظام کے لیے ناقابل روک ہیں۔
بین الاقوامی ردعمل اور نتائج
اس حملے نے بین الاقوامی مبصرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اطلاعات ہیں کہ یوکرین کو واشنگٹن اور لندن سے روسی علاقوں میں گہرائی تک حملے کرنے کی اجازت ملی ہے۔ ایک قابل ذکر حملے میں روس کے کُرسک علاقے میں ایک کمانڈ سینٹر پر نقصان پہنچا، جس سے تنازع کی شدت میں اضافے کا اشارہ ملا۔
روسی میزائل حملے کا ہدف دنیپروپیٹرووسک میں ایک بڑی صنعتی تنصیب تھی، جو یوکرین کے دفاعی نظام کے لیے اہم ہے۔ یہ تنصیب، جو ممکنہ طور پر یوزماش (Yuzhmash) ہے، سوویت دور سے میزائل اور دیگر فوجی سازوسامان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہے۔
یوکرین کا ردعمل
یوکرینی فضائیہ نے تصدیق کی کہ دنیپروپیٹرووسک کو مختلف میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا، جن میں ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور ہائپرسونک کِنژال میزائل شامل تھے۔ یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس کے فضائی دفاعی نظام نے سات میں سے چھ خ-101 کروز میزائلوں کو مار گرایا، تاہم نقصانات یا جانی نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
مستقبل کے امکانات اور روسی حکمت عملی
پوتن نے اپنے خطاب میں اس میزائل تجربے کو نیٹو ممالک کی "جارحانہ" کارروائیوں کا جواب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اس وقت تک تعینات نہیں کرے گا جب تک کہ امریکہ اپنے ہتھیار دوسرے علاقوں میں نہ بھیجے۔
پوتن نے خبردار کیا کہ روس اپنی نئی میزائل ٹیکنالوجی کے جنگی تجربات جاری رکھے گا اور اہداف کا انتخاب قومی سلامتی کے خطرات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ روس کسی بھی ایسے ملک کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے جو روس کے مفادات کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کرنے کی اجازت دے۔
امن کی اپیل اور تنازع میں شدت
تمام تر کشیدگی کے باوجود، صدر پوتن نے روس کے مسائل کو پرامن طور پر حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ روس کے مفادات کے تحفظ کے عزم کو نظر انداز نہ کرے، جبکہ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے۔
Editor
صدر آئزک ہرزوگ: "انصاف کا نظام حماس کے جرائم کے لیے ڈھال بن گیا ہے"
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید