شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
قوم نے انورا کمارا دسانائیکے پر بدعنوانی کے خلاف لڑنے اور معاشی بحالی کے لیے اعتماد کا اظہار کیا، جبکہ دہائیوں کے بدترین مالی بحران کا سامنا ہے۔
سری لنکا میں نئی سیاسی تبدیلی
سری لنکا میں ایک اہم سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں انورا کمارا دسانائیکے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر ابھرے ہیں، جو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ سری لنکا کے الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ دسانائیکے، جو مارکسسٹ مائل عوامی آزادی فرنٹ (جے وی پی) اور نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) اتحاد کے رہنما ہیں، نے 42.31 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ان کے اہم حریف، ساجتھ پریم داسا نے 32.76 فیصد ووٹ لیے، جبکہ سابق صدر رنیل وکرماسنگھے نے 17.27 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یہ الیکشن تاریخی تھا کیونکہ کسی بھی امیدوار نے 50 فیصد اکثریت حاصل نہیں کی، جس کے باعث دوسرے مرحلے میں ووٹوں کی گنتی ضروری ہو گئی۔
دسانائیکے کا اتحاد اور تبدیلی کا وژن
55 سالہ دسانائیکے پیر کے روز کولمبو میں صدر سیکریٹریٹ میں حلف اٹھائیں گے۔ اپنی کامیابی کی تقریر میں انہوں نے تمام سری لنکن باشندوں، جن میں سنہالی، تامل اور مسلمان شامل ہیں، کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی کامیابی کو ایک اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا، "جو خواب ہم نے صدیوں سے پالا تھا، وہ اب حقیقت بن رہا ہے۔" انہوں نے ملک میں ایک نئی نشاۃ الثانیہ کا وعدہ کیا جو مختلف برادریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔
الجزیرہ کی مینل فرنینڈیز نے دسانائیکے کی کرشماتی شخصیت اور ان کی مہم کے دوران فیصلہ کن موقف کو اجاگر کیا، اور کہا کہ وہ ملک کی سیاست میں ایک نئی تازگی لے کر آ رہے ہیں۔ دسانائیکے کے پاس 20 سال کا پارلیمانی تجربہ ہے اور وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سیاسی میدان میں نئی زندگی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
معاشی مسائل کا چیلنج
یہ انتخاب سری لنکا کی معاشی صورتحال کے زیر اثر تھا، جو 2022 سے بحران کا شکار ہے۔ دسانائیکے نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی بیل آؤٹ شرائط کے تحت عائد کی گئی کفایت شعاری کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے اور ان شرائط کو عوام کے مفاد میں دوبارہ طے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کی توجہ فلاحی پالیسیوں پر ہے، جن کا مقصد مہنگائی اور زندگی کی مشکلات میں گھرے عوام کی مدد کرنا ہے۔
سابق صدر وکرماسنگھے کی حکومت ان معاشی چیلنجوں سے نمٹنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے ان کی ناکامی ہوئی۔ ان کا تعلق راجاپکسے خاندان سے تھا، جو ملکی معیشت کے زوال کا ذمہ دار مانا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت کم ہو گئی۔
سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش
ماہرین کا خیال ہے کہ دسانائیکے کی صدارت سری لنکا میں دو اہم سیاسی خلا کو پُر کرے گی۔ ویرائٹ ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیشن ڈی میل کے مطابق، پہلا خلا راجاپکسے خاندان پر عوام کے اعتماد کے خاتمے کا ہے، جو گزشتہ 15 سالوں سے سری لنکن سیاست میں چھایا ہوا تھا۔ دوسرا خلا بائیں بازو کی سیاست کا ہے، جو راجاپکسے کی وجہ سے دائیں بازو کی طرف منتقل ہو گئی تھی۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایلن کینن نے کہا کہ دسانائیکے نے کامیابی سے بدعنوانی کے خلاف عوامی جذبات کو اپنی مہم کا حصہ بنایا۔ ان کی مہم کا وعدہ ایک نظامی تبدیلی کا ہے، جس نے ان کے حامیوں میں امیدیں بڑھا دی ہیں۔ دسانائیکے کی کرشماتی تقاریر اور عوام سے جڑنے کی صلاحیت حکومت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
نتیجہ
سری لنکا انورا کمارا دسانائیکے کی قیادت میں ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، جہاں قوم کو تبدیلی کی امید ہے۔ اتحاد، معاشی بحالی اور بدعنوانی کے خاتمے پر ان کی توجہ سے ملک کو درپیش بڑے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔ آنے والے مہینے ان کے وعدوں کو پورا کرنے اور عوام کا سیاسی نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے اہم ہوں گے۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔