Loading...

  • 17 Sep, 2024

حماس کی جانب سے قیدیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی دھمکی، اسرائیلی چھاپوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ

حماس کی جانب سے قیدیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی دھمکی، اسرائیلی چھاپوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ

حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز نے ایک بیان جاری کیا، دو دن بعد جب اسرائیلی فورسز نے ایک غزہ سرنگ سے چھ قیدیوں کی لاشیں برآمد کیں۔

حماس کی سنگین وارننگ

حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز نے ایک دل دہلا دینے والے بیان میں اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیلی فوجی آپریشنز جاری رہے تو غزہ میں موجود قیدی "تابوتوں میں" اسرائیل واپس آئیں گے۔ یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیلی فورسز نے جنوبی غزہ کی ایک سرنگ سے چھ قیدیوں کی لاشیں برآمد کیں، جس سے باقی قیدیوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے زور دیا کہ ان قیدیوں کے خاندانوں کو ایک سنگین انتخاب کا سامنا ہے: اپنے پیاروں کو زندہ وصول کرنا یا مردہ۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے بجائے فوجی دباؤ کو ترجیح دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے قیدیوں کی موت واقع ہو رہی ہے۔

نیتن یاہو کا ردعمل اور عوامی احتجاج

چھ لاشوں کی برآمدگی کے بعد، نیتن یاہو نے کہا کہ انہیں حماس نے "قتل" کیا تھا، اور افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں زندہ واپس لانے میں ناکام رہے۔ ایک ٹیلی ویژن خطاب کے دوران، انہوں نے اسرائیل میں جاری احتجاجات کا ذکر کیا، جہاں مظاہرین نے ان کی حکومت پر تنقید کی کہ وہ ایک ایسا جنگ بندی حاصل کرنے میں ناکام رہے جو قیدیوں کو بچا سکتی تھی۔ نیتن یاہو کے بیانات نے مزید غصے کو بھڑکا دیا ہے، اور بہت سے اسرائیلیوں نے اس افسوسناک نتیجے کے لیے ان کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ احتجاجات اہم ہونے کے باوجود تنازعے کے رخ کو تبدیل کرنے کا امکان نہیں رکھتے، کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت اپنی فوجی حکمت عملی پر قائم ہے۔

تنازعے کا وسیع تناظر

غزہ میں صورتحال 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے ڈرامائی طور پر بگڑ گئی ہے، جب حماس نے ایک اچانک حملہ کیا جس کے نتیجے میں دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا۔ اس کے بعد سے، اسرائیلی فضائی حملوں نے علاقے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی صحت کے حکام کے مطابق 40,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس افراتفری کے درمیان، حماس نے تقریباً 250 قیدی پکڑ رکھے ہیں، اور جاری فوجی آپریشنز نے ان کی رہائی کے لیے مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔

بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی کوششیں

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس صورتحال پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ کرنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔ بائیڈن کے تبصرے بین الاقوامی برادری میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں جو کہ مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہے، جن کی ثالثی امریکہ، قطر اور مصر نے کی ہے۔ کئی ماہ کی بات چیت کے باوجود، مئی میں بائیڈن کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز ابھی تک عملی طور پر سامنے نہیں آئی، کیونکہ دونوں فریق اپنے موقف پر قائم ہیں۔ حماس تنازعے کے خاتمے اور اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے، جبکہ نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک کہ حماس کو شکست نہیں دی جاتی۔

جاری تنازعے کے نتائج

جبکہ تنازعہ جاری ہے، غزہ میں انسانی صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے، اور جنگ بندی کے مطالبات میں شدت آ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ نیتن یاہو کی مذاکرات میں شامل ہونے کی ہچکچاہٹ قیدیوں کی مزید ہلاکتوں کا سبب بن سکتی ہے۔ سابق اسرائیلی سفیر الون پنکاس نے حکومت کے نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جاری فوجی حکمت عملی نقصان دہ ہے اور صرف بحران کو بڑھا رہی ہے۔ صورتحال نازک بنی ہوئی ہے، اور اگر سفارتی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تو مزید بگاڑ کا امکان ہے۔

مختصراً، اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ ایک نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے، جہاں قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ جیسے جیسے دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں، بین الاقوامی برادری قریب سے دیکھ رہی ہے، امید کرتے ہیں کہ کوئی ایسا حل نکل آئے جو تشدد کا خاتمہ کرے اور یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔